ڈاکٹر طاہر مسعود ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔ایک شفیق اور مہربان استاد، خاکہ نگار، انٹرویو نگار، افسانہ نگار، شاعر ، کالم نگاراور اس پر مستزاد ایک صوفی ( راہ سلوک کا بے چین مسافر)۔ہر حیثیت میں منفرد و یکتا بالخصوص انٹرویو نگاری میں جس جراٗت اور بے ساختگی کو اختیا ر کیا اس سے انٹرویو نگاری کو بلا شبہ ایک نئی جہت فراہم ہوئی ، بعینہہ یہی اسلوب قدرے جراٗ ت کے ساتھ انہوں نے خاکہ نگاری میں بھی اپنائے رکھا ۔ زیر مطالعہ ’’ کوئے دلبراں ‘‘ دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ جلد اول میں شخصی خاکے ہیں جب کہ جلد دوم میں صرف وفیات کو شامل کیا گیا ہے۔اس سے پہلے ’’ اوراق ناخواندہ ‘‘ کے نام سے بھی شخصی خاکوں کاایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ کوئے دلبراں کی جلد اول میں 43 شخصیات کے خاکے شامل ہیں جب کہ وفیات پر مشتمل جلد دوم میں 44 مضامین شامل ہیں۔ خاکہ نگاری ایک مشکل صنف ہے۔کسی بھی شخصیت کا، جس سے آپ کا قریبی تعلق بھی ہو ، ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر جائزے کو تحریر کرنا آسان کام نہیں ہے ۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ تنقید کے مقابلے میں تعریف کو پسند کرتا ہے ،تنقید خواہ کتنی ہی درست کیوں نہ ہو بالعموم ناگوار خاطر گزرتی ہے جب کہ تعریف میں کتنا ہی مبالغہ کیوں نہ ہو سرشاری پیدا کرتاہے۔ یہی وہ خار زار مرحلہ ہے جہاں سے کسی خاکہ نگار کو مہارت کے ساتھ گزرنا ہوتاہے ۔ اور ڈا کٹر طاہر مسعود اس کٹھن مرحلے سے بحسن کما ل گزرے ہیں اور اس طرح گزرے کہ سچائی کو منافقت سے آلودہ نہیں ہونے دیا ۔ اوراق ناخواندہ کے ابتدائیے میں انہوں نے لکھا تھا : ’’ تو جن لوگوں کی بابت میں نے لکھا ہے ، چھوٹا منہ بڑی بات مگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ انھیں میں نے اپنا باطنی تجربہ بنا کر شدت و حدت سے محسوس کرکے ہی صفائی اور صاف گوئی سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔کوئی بات ناگوار محسوس ہو تو یہ سوچ کر معاف کردیجئے گا کہ سچ کڑوا ہوتا ہے ،جیسے نیم کے پتے،کونین کی گولی اور صحت بخش انجکشن کڑوے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں مگر مقصد ان کا نیک اور مثبت ہوتا ہے۔‘‘ خاکہ نگاری ڈاکٹر طاہر مسعود کی پسندیدہ صنف ہے ۔انھیں خاکہ نگاری اس لئے اچھی لگتی ہے کہ وہ انسانوں سے محبت کرتے ہیں۔ انھیں دوست تو اچھے لگتے ہیں۔ دشمن بھی برے نہیں لگتے ، وہ انہیں اور ان کی دشمنی ، ان کی نفرت اور ان کے حسد کو سمجھنا چا ہتے ہیں اور ان کے خیال میں اسی چکر میں اسی سمجھنے کے پھیر میں پڑ کر انھوں نے بہت اچھے اچھے دوست کھو دیئے ہیں۔دوست تو یقینا ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب نے کھود ئیے ہونگے تاہم انھوں نے اردو ادب کو بہت عمدہ خاکوں سے ضرور روشناس کرادیا ۔ کوئے دلبراں کی جلد اول میں شامل خاکوں کی ادبی حیثیت کا تعین تو اردو ادب کے ناقدین اورقارئین ضرور کرینگے مگر ایک بات طے ہے کہ خاکہ نگاری کرتے ہوئے شخصی خوبیوں اور خامیوں کو فکر و نظر کی گہرائی اور تما تر جذباتی حساسیت کے ساتھ جس طرح قرطاس پر منتقل کیا ہے ۔ اس سے وہ لمحہ بھر میں اس شخصیت کو پڑھنے والوں کے روبرو کردیتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں تو تحریر میں جذبات کو پیش کرنے کا ہنر بھی خوب آتا ہے ۔اس کتاب میں شامل ایک خاکہ ’’ جاناں جاناں کا فسانہ: اسلم بھائی‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو : ’’ جاناں جاناں تو احمد فراز کے شعری مجموعے کا نام ہے ، کبھی کبھار اس نام یا عنوان پر غور کرتے ہوئے سوچا کرتا تھا کہ ایک مرتبہ ’’جاناں ‘‘ لکھنا کیا کافی نہ تھا کہ غزل میں تو ہر مصرعے میں ایک ہی بار’’جاناں ‘‘ کی تکرار ملتی ہے۔ اس روز دونون میاں بیوی کو ایک دوسرے کو ’’جاناں ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے دیکھا تو معلوم ہوا یا منکشف ہوا کہ شعری مجموعے کے دونوں جاناں یعنی جاناں جاناں کو دونوں میاں بیوی نے نہایت سلیقے سے آپس میںبانٹ لیا ہے ۔ایک خاموش معاہدہ ’’ میں‘‘ تمھیں ’’جاناں کہوں گا ‘‘ اور تم بھی مجھے ’’جاناں ‘‘کہنا۔ یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا ۔ اس لئے کہ محبت ایک مقام پر پہنچ کر گونگی ہو جاتی ہے ۔ بولتی نہیں ، منہ سے پھوٹتی نہیں۔ بس اندر ہی اندر پگھلتی چلی جاتی ہے اور ڈوبتی ہوئی یہ محبت جب ڈوبنے سے پہلے آخری بار پکارتی ہے : ’’جاناں۔۔۔‘‘تب محبت کی سانس اکھڑ جاتی ہے اور ساری کائنات میں یہی ایک صدا ، یہی ایک زخمی آواز گونجتی رہ جاتی ہے۔‘‘ میاں بیوی کے رشتے میں موجود اس محبت ،یگانت اور گہری وابستگی کو جس شدت سے محسوس کیا اسے انھوں نے اپنے پڑھنے والوں کے لئے ایک قابل رشک مثال بنادیا ۔ اسی طرح اس کتاب میں شامل ایک خاکے ’’ آصف فرخی : میرا زخم خوردہ دوست ‘‘نے مجھے ذاتی طور پر بہت متاثر کیا ۔وہ اگرچہ کتاب کے آخر میں ہے مگر اپنے اسلوب اور قرینہء اظہار کے اعتبار سے بلند تر سطح پر ہے ۔ اس سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے۔ ’’ تمہاری موت کو دو سال سے اوپر ہونے کو آئے ہیں اور میں نے تم پر کچھ نہیں لکھا ، کوئی رسمی تعزیتی مضمون بھی نہیں۔ نہ لکھنے کی وجہ کیا ہوئی ، میں نے اس پر بھی غور نہیں کیا ۔ تمھاری ناگہانی موت کی اطلاع نے مجھ پر سکتہ طاری کردیا تھا۔ سچ پوچھو تو میں سہم گیا تھا ۔ میرے بھائی ، جب میں تمہاری نماز جنازہ میں شرکت کے لئے کراچی یونیورسٹی کی مسجد ابراہیم پہنچا تو تمھاری میت آچکی تھی ۔ گہوارے پر مقدس چادر پڑی ہوئی تھی اور اندر تمھارا بے جان وجود کفن میںلپٹا تھا ۔ تم اند رتھے مگر نہیں تھے ۔ آدمی کی حقیقت اگر اس کی روح میں چھپی ہے اور جسم فقط اس کا لباس ہے تمھاری روح پرواز کر چکی تھی ۔‘‘ کوئے دلبراں میں شامل 43خاکوں میں قریبی خاندانی رشتوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ، اہل علم، ادبی سیاسی اور سماجی شخصیات کو شامل کیا ہے۔ان میں ابا جان ، اماں جان،دادا ابا کی یادیں،ابی جان،دکھیاری پھو پھی او ر بے درد بیٹے کی دردمند ماں کے عنوانات پر مشتمل خاکے انتہائی تاثر انگیز ہیں ۔ اسی طرح اساتذہ کے خاکوں میں ، جن میں پروفیسر زکریا ساجد اور متین الرحمن مرتضی کی شخصی خاکے شامل ہیں ، محبت ،احترام اوراستاد کے مشفقانہ روئیے نمایاں ہیں آج کے تدریسی ماحول کے لئے ایک روشن مثال ہیں ۔ یہ خاکے نہ صرف طالبعلموں کے لئے اکتساب علم کی راہیں کشادہ کرتے ہیں بلکہ اساتذہ کے لئے بھی ایک قابل تقلید مثال ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی یہ کتاب ا لمشرق مرکز اشاعت ،کراچی سے شائع ہوئی ہے۔