آج کچھ لکھنے کا موڈ نہیں ہے۔ سیاست ،سماج ادب ،کتابیں سوشل میڈیا ہمارے رویے ، پرسنل گرومنگ اور زندگی سلیقے سے گزارنے کے حوالے سے کئی موضوعات ہیں مگر دل اور قلم کسی موضوع پر نہیں آتا کیونکہ ان پر یکسانیت کی دھند پھیلی ہے۔ روٹین کے کاموں سے دل اکتا جاتا ہے۔ کالم لکھنا بھی رفتہ رفتہ روٹین کا حصہ بن جاتا ہے ۔وہی حالات و واقعات ہیں۔ اس کے اندر کسی نئے موضوع کی تلاش کہ ڈیجیٹل دور کا قاری کو لبھا سکے۔ یوں بھی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس پر آف دا ریکارڈ کھل کر تبصرہ کرنے میں دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔ سیاست دانوں کی مفاد پرستیوں اور رئیل پولٹک کے کھیل تماشے کو تہذیب اور شائستگی سے الفاظ میں بیان کرنے سے کبھی کبھی دل کی تسلی نہیں ہوتی ۔سو آج باضابطہ طور پر کالم نہ لکھنے کا ارادہ کیا ہے ۔ مگر کالم نگار کی مجبوری یہ ہے کہ مقررہ دن پر کچھ تو لکھنا پڑ تا ہے۔سو اس مجبوری کے پیش نظر کالم کی طشتری میں "کچھ نہ کچھ"حاضر ہے۔اب دیکھیں کہ خیال کی یہ رو ہمیں بہا کر کہاں لے جاتی ہے تو چلیں شروع کرتے ہیں آج کی سفید دھند۔ سے بھری ہوئی صبح سے۔ ہم فائیو اے ایم کلب کے ممبر ہیں سو صبح کا آغاز جلد ہوتا ہے۔ عموماً صبح کا آغاز مختلف طرح کی ہربل ٹی سے ہوتا ہے بعض اوقات نیم گرم پانی شہد اور لیموں سے بھی گزارا کر لیا جاتا ہے۔سب سے پہلا کام نماز اور اللہ کو یاد کرنا ہے۔اس کے بعد مختلف امتزاج سے بنا قہوہ پیا جاتا ہے۔ آج قہوے کا دل نہیں تھا سو چائے بنانے کے لیے میں نے کچن کا رخ کیا اور برقی کیتلی کا سوئچ آن کرکے پانی گرم کرنے کو رکھا ۔ کیتلی کی ناک سے دھوا ں نکلنے لگا اور دومنٹ میں ہی گھررر گھررر پانی ابلنے کے آواز آنے لگی۔ ابھی بہت صبح تھی۔ میں نے کچن کی کھڑکی سے جھانکا، نیم تاریک گہری خاموشی اور دبیز دھند پھیلی ہوئی تھی۔ کھڑکی کے پار دکھائی دینے والا سبزہ سفیدی میں گم تھا۔اتنے میں مجھے ٹائنی کی آواز آئی۔ میاؤں میاؤں ۔ وہ کچن کی کھڑکی پر آکر حسب معمول مجھے متوجہ کر رہا تھا۔ ارے ٹائنی تم اتنی صبح جاگ گئے ، میں جس وقت بھی کچن میں آوں تم کھڑکی میں آکے میاؤں میاؤں کرنے لگتے ہو۔ ابھی ناشتے کا وقت نہیں ہوا ۔ابھی کچھ دیر میں ناشتہ ملے گا۔ٹائنی جس انداز میں میاؤں میاؤں کر رہا تھا وہ ناشتہ مانگ بھی نہیں ر ہاتھا۔ بس صبح کی سلام دعا کر رہا تھا۔ یہ ننھا سا بلونگڑا مروت اور پیار سے بھرا ہوا ہے۔ پھر اس کا اظہار بھی خوب کرتا ہے۔ چند مہینے پہلے یہ دلکش بھورے رنگ اور بھوری آنکھوں والا بلونگڑا ایک صبحِ اچانک پورچ میں گاڑی کے نیچے سے برآمد ہوا بلکہ دو چھوٹے چھوٹے بلونگڑے تھے۔ ابھی ان کی آنکھیں موندی ہوئی تھیں۔ گاڑی کی گڑگڑاہٹ سے سہم کر گملے کے پیچھے چھپ گئے۔کسی بدبخت نے انہیں ماں سے جدا کرکے ہمارے گھر لا پھینکا تھا ۔اب ہمارے لیے چیلنج یہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے بلونگڑوں کو کس طرح کھانا کھلایا جائے ،کیونکہ انہیں ابھی کھانا کھانا بھی نہیں آتا تھا۔بلی کے یہ دونوں بچے اتنے چھوٹے تھے کہ میں نے دونوں کا نام ٹائنی مائنی یعنی ننھے منے رکھ دیا۔ مائنی زیادہ ہی کمزور اور چھوٹا تھا کچھ دنوں تک نظر نہ آیا تو ہم یہی سمجھے کہ وہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا ہے یا شاید ہمارا گھر چھوڑ گیا۔ بہرحال ٹائنی ہمارے گھر پہ ہے ۔اندر نہیں باہر گارڈن میں رہتا ہے۔ اسے گھر کے پالتو بلے والیکافی مراعات حاصل ہیں۔ اب اس کی صحت بہت اچھی ہے۔اس کی عادتیں بہت پیاری اور مزے کی ہیں۔ اس پر ایک مکمل افسانہ لکھنا بنتا ہے۔ٹائنی کے ناشتے کا ٹائم ہو چکا ۔نیم گرم دودھ وہ مزے سے جلدی جلدی پینے لگا ۔ صبح صبح وقت کو پہیے لگ جاتے ہیں اور وہ تیز تیز بھاگتا ہے ہم بھی اس کے ساتھ بھاگتے دوڑتے دانیال کو سکول چھوڑ کر آئے اور واپسی پر صبح کی سیر کے لئے پارک چلے گئے ۔ آج دسمبر کا پہلا دن تھا جو روایتی دسمبر کی طرح یخ بستہ اور دھند آلود تھا۔ سردی بڑھ جائے تو پارک میں لوگ کم آتے ہیں۔اس وقت جو لوگ سیر کے لیے موجود تھے وہ کہر کے بادلوں میں چھپے ہوئے ہمیں دکھائی نہ دیتے تھے ۔۔آج دسمبر کی روایتی صبح نظرآئی ورنہ تو پورا دسمبر سردی کی شدت کے بغیر ہی چپکے چپکے سے گزر رہا تھا۔ روز اچھی دھوپ نکل رہی تھی اور سنہری دھوپ میں ڈوبا ہوا دسمبر دلوں پر کم کم اداسی اتارتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ دسمبر کے آغاز کے ساتھ ہی جس قسم کی تڑپتی اداس شاعری سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے اس میں افاقہ رہا۔ دھند آلود موسم میں سیر کا لطف ہی الگ ہوتا ہے واپس آکر دیکھا تو ہاکر اخبار پھینک گیاتھا۔اخبار کی سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے ایک خبر پر نگاہ ٹھہر گئی۔ سائیں عثمان بزدار کہتے ہیں کہ میرے سینے میں بہت سے راز دفن ہیں۔ یا اللہ خیر ! یہ بزدار صاحب تو خاموش رہنے پر یقین رکھتے تھے ۔یہاں تک کہ وزارت اعلی کے دور میں بھی خاموش رہے اور خاموشی کی اتنی طویل ریاضت کے بعد انہوں نے بیان دیا ہے تو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ان کی گفتگو کا رخ چوہدری صاحب کی طرف ہے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی ہے۔چودھری صاحب جہاں دیدہ سیاست دان ہیں۔و ہ جو کھل کر سامنے آئے ہیں تو اس کے پیچھے سیاست کی ریاضت ہے جسے وہ اپنے حق میں استعمال کرنا جانتے ہیں۔ سیاست میں دلچسپ صورتحال ہے۔ دیکھئے کہ آنے والے دنوں میں اس ٹوپی سے کس رنگ کا کبوتر نکلتا ہے۔فی الحال تو مجھے ناشتہ کرنا ہے اور چائے کی طلب محسوس ہو رہی ہے ۔کالم پھر کسی روز لکھیں گے۔