یہ5نومبر رات ساڑھے آٹھ بجے کا واقعہ ہے‘جین مندر سے فرید کورٹ روڈ پر جاتے ہوئے موبائل سینچرز نے مجھ پر حملہ کیا اور موبائل چھین کر فرار ہو گئے‘نزدیکی تھانے میں ایف آئی آر تو درج ہو گئی مگر آگے کیا ہوتا ہے‘پولیس خاموش ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ تھانے جا کر حیرانی ہوئی کہ گزشتہ ایک ہفتے میں مختلف تھانوں میں دو درجن سے زائد ایف آئی آر درج کروائی گئیں‘کہیں گن پوائنٹ پر موبائل اور نقدی چھینی گئی توکہیں گھر میں گھس کر خواتین کو یرغمال بنا کر لوٹ مار کی گئی ‘ کہیں لڑائی جھگڑے میں موبائل اور نقدی چھینی گئی تو کہیں ڈکیتی کی وارداتیں۔لاہور میں اس سے قبل بھی یقینا ایسے واقعات ہوتے ہوں گے مگر گزشتہ ایک ماہ میں موبائل سنیچنگ سمیت ڈکیتی کی وارداتوں نے کراچی کی یاد تازہ کر دی۔ہم سوچتے تھے کہ کراچی کے حالات کیسے ٹھیک ہوںگے؟وہاں کے لوگ کیسے زندگی گزارتے ہوں گے؟جہاں گھر سے نکلتے ہوئے یہ خیال دامن گیر ہوتا ہو کہ واپسی خود آئیں گے یا کسی اسٹریچر پہ لائے جائیں گے؟ ایسی فضا میں سانس لینا کس قدر مشکل ہے‘کوئی کراچی والوں سے پوچھے۔ مجھے لاہور کی موجودہ فضا نے انتہائی پریشان کر دیاہے ‘اپنے ساتھ ہونے والے واقعے میں قانونی کارروائی کے دوران میرا یقین پختہ ہو گیا کہ اگر آپ کے پاس طاقت یا عہدہ نہیں تو آپ کی بات اور آپ کے خون کی کوئی حیثیت نہیں۔مجھے اس دوران سیف سٹی اتھارٹی کو بھی قریب سے جاننے کا موقع ملا‘مثلاً ہم تین دن لگاتار سیف سٹی اتھارٹی کے دفتر جاتے رہے‘ان سے گزارش کرتے رہے کہ ہمیں اس روڈ پر لگے کیمروں کی فوٹیج دی جائے تاکہ موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ سے تفتیش میں آسانی ہو‘وہاں سے ایک ہی جواب مل رہا ہے کہ سافٹ ویئر ایرر ہے‘فی الحال ریکارڈنگ نہیں دی جا سکتی۔جس رات میرے ساتھ یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا‘اسی روز ہائی کورٹ کے سامنے دن دیہاڑے تین وکیلوں سے بھی موبائل فون چھینے گئے‘کچھ وکلاء کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلز اٹھا لی گئیں‘میرے ایک جاننے والے سے وارث روڈ پر گن پوائنٹ پہ موبائل اور نقدی چھینی گئی‘سروسز کے ایک ڈاکٹرز سے رات گیارہ بجے ہسپتال کے سامنے ایساہی افسوس ناک واقعہ پیش آ چکا‘پی اے ایف کالونی میں ایک عزیز کے گھر دن دیہاڑے پستول دکھا کر گھر سے قیمتی اشیاء لوٹ لی گئیں ‘اور ایسے ہی درجنوں واقعات کی فہرست دے سکتا ہوں۔سوال یہ ہے کہ سیف سٹی اتھارٹی کے کیمرے کب کام آئیں گے؟چلیں مان لیا کہ ایک ہفتے سے سافٹ ویئر ایرر آ رہا ہے ‘اگر اس دوران کوئی بہت بڑا حادثہ پیش آ جاتا ہے تو کیا سیف سٹی اتھارٹی اس جواز کے ساتھ بری الذمہ ہو گی؟ سیف سٹی اتھارٹی کا یہ جواز کہ ہمارا چینی کمپنی سے مکالمہ ہو رہا ہے کیونکہ سافٹ ویئر چینی کمپنی ہواوے چلا رہی ہے‘یہ ڈائیلاگ اگر ایک ماہ تک بھی نہیں ہوتے تو کیا ایسے میں لاہور میں ڈاکو راج عام کر دیا جائے‘مجرموں کو آزاد چھوڑ دیا جائے؟میں نے نزدیکی تھانے میں رپورٹ کرواتے ہوئے ایس ایچ او سے بھی ان خدشات کا کھل کر اظہار کیا کہ جناب عالی! گزشتہ ایک ہفتے میں صرف اس ایک روڈ پر گیارہ واقعات پیش آ چکے‘موبائل سنیچرز کی تعداد میں شدید اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ نوے فیصد سنیچرز کی عمریں اٹھارہ سے بائیس کے درمیان ہیں یعنی کالجز اور یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس یا بے روزگار نوجوان۔ایک تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موبائل سرحد پار بھیجے جاتے ہیں‘اس میں افغانستان کا نام بار بار سننے میں ملا۔اگر ایسا ہے تو ہمیں یہ بتایا جائے کہ یہ ذمہ داری کس کی ہے؟یہاں سے چوری ہونے والا موبائل اگر موبائل کی بڑی مارکیٹوں میں فروخت ہوتا ہے تو ایسا کیوں؟ کیا موبائل ایسوسی ایشنز سے ڈائیلاگ نہیں ہو سکتا؟اگر سرحد پار جا رہا ہے تو وزارت داخلہ کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں کہ اس پر پابندی لگائی جا سکے؟اگر موبائل ورکشاپس راتوں راتوں ایمی نمبر تبدیل کر کے چوری شدہ موبائل بھی اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تو ایسے انجینئرز تک رسائی ممکن نہیں؟بہرحال سوالات کی فہرست طویل ہو سکتی ہے مگر معاملہ پھر پنجاب پولیس اور سیف سٹی اتھارٹی پہ آ کر رک جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بیروزگاری نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے‘متوسط فیملی کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو چکی۔منگائی اور معیشت کی زبوں حالی سے درجنوں فیکٹریاں بند ہو چکیں‘ ایسے میں نوجوانوں کا ایسی وارداتوں میں ملوث ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔غریب کہاں جائے؟ ریاست اور ریاستی ٹھیکے دار ملک کو جس تباہی کے دہانے پر لا چکے‘اسے ٹھیک ہونے میں سال نہیں شاید صدیاں لگ جائیں۔ایک نوجوان جو سوسالہ یا اٹھارہ سالہ تعلیم کے بعد عملی زندگی میں آتا ہے‘اسے جگہ جگہ مافیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والے افراد نے ملک کو معاشی طور پر بنجر کر دیا‘یہاں نہ تو نئی نوکریاں ہے اور نہ ہی نئے خواب۔خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال لی جاتی ہیں اور نوکری میں تنخواہ کے اضافے کا تقاضا کرنے والوں کو نوکری سے ہی چھٹی کروا دی جاتی ہے۔ڈالر کی سپیڈ نے پاکستان میں مہنگائی کی سپیڈ میں اضافہ کیا‘ایسے میں میرا پڑھا لکھا نوجوان کہاں جائے؟جب اسے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے بعد بھی دو وقت کی روٹی کے لیے مافیا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ایسے میں دانشور نہیں سنیچرز پیدا ہوتے ہیں اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔میری تحقیق کے مطابق زیادہ تر سنیچرز طالب علم ہیں‘بے روزگارہ نوجوان ہیں‘وہ نوجوان ہیں جنھیں فیکٹریاں بند ہونے سے ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا‘ایسے میں کیا ہونا چاہیے؟سرکار کو چاہیے کہ جہاں نوجوانوں کے لیے ملازمتو ں کا بندوبست کیا جائے وہاں متوسط خاندانوں کے لیے زندگی آسان بنائی جائے۔ حکومتی ادارے سیف سٹی اتھارٹی اور پنجاب پولیس کے ساتھ تعاون کریں‘ان کے مسائل حل کریں تاکہ وہ عوام کے مسائل حل کر سکیں۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح کی وجہ جہاںبے روزگاری اور مہنگائی ہے ‘وہاں جرائم کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے اداروں کی مجرمانہ غفلت بھی۔لہٰذا میری حکومت اور حکومتی اداروں سے گزارش ہے کہ خدارا لاہور کوکراچی بننے سے بچائیں اور اگر آپ عوام کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم سے کم جو ان کے پاس ہے‘اس کا تحفظ تو یقینی بنائیں۔