کیا سوڈان کی موجودہ صورتحال ایک دو دن کا شاخسانہ ہے؟ یا پس پردہ عرب عالمیسیاست کے راز ہیں؟ اس اہم عرب افریقی ملک اور براعظم افریقہ کے'' گیٹ وے'' پر کس کی نظریں لگی ہوئی ہیں؟ کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سوڈان جغرافیائی اعتبار سے براعظم افریقہ کا اہم ترین ملک ہے جس کی سرحدیں ایک طرف افریقہ اور دوسری طرف عرب ممالک سے ملتی ہیں اور اس کی نیشنل آرمی بھی اپنی پیشہ وارانہ مہارت کی وجہ سے عرب ممالک میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے ۔ خطے میں اس کے خفیہ ادارے جنرل انٹیلیجنس سروس (جی آئی ایس) کی برتری بھی مسلمہ ہے جس کاڈنکا عرب لیگ کے ہیڈ کوارٹر مصر میں بھی بجتا ہے۔ ہمسایہ ملک مصر کا سوڈانی فوج میں کافی اثر رسوخ ہے اس کی بیشتر اعلی فوجی قیادت مصر ی فوج سے تربیت یافتہ ہیمگر سوال یہ ہے کہ آخر راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ عوام نہیں بلکہ عسکری قوت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور لڑائی دارالحکومت خرطوم کے صدارتی محل تک پہنچ گئی۔ صورتحال جاننے کیلئے کیلئے میرا عید الفطر سے قبل اپنے سوڈانی دوستوں سے رابطہ ہوا خیریت دریافت کی، سلام دعا اور حال احوال پو چھنے کے بعد میں نے ذرا ہچکچاتے ہوئے پو چھا کہ یار بتائیں کس کا پلڑہ بھاری ہے ؟ میری بات سنتے ہی سوڈانی دوست کی ہچکیاں بندھ گئیں وہ دو چار منٹ خاموش رہنے کے بعد بولا ،کیا بتائوں برادر دونوں ہی ا پنی اپنی عسکری برتری کا دعویٰ کر رہے ہیں اور عوام ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہے،عوام کو کیا معلوم میدان جنگ میں کس کی برتری ہے ؟ انہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سابق صدر عمر البشیرکو روٹی مہنگی کرنے کی وجہ شدید عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔طویل عوامی احتجاج کے نتیجہ میں انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ آج روٹی ہی نہیں ضروریات زندگی کی ہر چیز کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں،دونوں گروپ ملکی وسائل سے اپنے ہی ملک تباہکر رہے ہیں ایک ایک گولی سوڈانی عوام کے خون سودا کرکے خریدی جاتی ہے لیکن کسی کو عوام کی پرواہ ہے نہ ہی ملک ،ملک کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے دیگر شہروں کو چھوڑ دیں دارالحکومت خرطوم کے ہسپتال تک محفو ظ نہیں رہے ۔ اہم ہسپتال اور ادارے جزوی یا کلی طور پر تباہ کردئیے گئے ہیں ''وٹس ایپ''کال پر ہونے والی اس ملاقات میں ہمارا بار بار رابطہ منقطع ہوتا اوربار بار بحال ہوتا میرے بار بار رابطہ کرنے پر میرے دوست کو قدرے حیرانگی ہوتی کیونکہ اس وقت دارالحکومت خرطوم کی گلیوں میں مکمل سناٹا ہے۔ ٹینک اور مسلح دستے گشت کر رہے ہیں شہر کے بالکل وسط میں واقع بین الاقوامی ہوائی اڈا مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ بجلی اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے ڈپلومیٹک ائیریاز ، مارکیٹس اور بازاروں میں بھی ہوکا عالم ہے، لوگ محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں تمام ممالک نے اپنے اپنے شہریوں کا انخلاء شروع کردیا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف سعودی عرب ۔ایران ، سعودی عرب۔ شام اور سعودی عرب۔ یمن میں کشیدگی کا خاتمہ ہو رہا ہے اور مستزاد یہ کہ سعودی عرب۔ قطر اور سعودی عرب ۔ ترکی باہم شیر شکر ہو رہیہیں وہاں آخر سوڈان میں خانہ جنگی کے شعلے اچانک کیوں بھڑنا شروع ہو گئے ہیں ؟ کیا کہیں ماضی میں باہم دست و گریباں عرب ممالک اپنی جنگ سوڈان کی سرزمین پر منتقل تو نہیںکر رہے ؟ ملک کے بد ترین معاشی حالات میں عسکری قیادت کا باہم دست و گریبان ہونا چہ معنی دارد؟ جولائی 2019ء میں شدیدترین عوامی احتجاج کے نتیجہ میں طویل عرصہ تک اقتدار پر براجمان صدر جنرل عمر البشیرکی بساط لپیٹی گئی تھی جس کے بعدٹیکنوکریٹس اور عسکری قیادت کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی۔2021ء میں فوج نے اس عبوری سیٹ اپ کو بھی ختم کردیا اب صرف فوج برسراقتدار ہے لیکن کسی طرف سے بھی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایک غیر یقینی کی صورتحال ہے انتخابات دور کی بات اس کی تاریخ کاتعین نہیں کیا جارہا تھا ایسے میں ملک کے عبوری صدر اور نائب صدر کے مسلح جتھے باہم دست و گریباں ہیں اور اپنی اپنی برتری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوڈان نیشنل آرمی میں گروپنگ کوئی نئی بات نہیں یہ صورتحال اس سے قبل بھی رہی ہے لیکن نوبت اس حد تک نہیں پہنچی کہ مسلح فوجی دستوں کی لڑائی شہر شہر اور قریہ قریہ پھیل جائے۔ سوڈان کے تمام فوجی انقلاب صف اول کے جنرلز کی حکومت کیخلاف بغاوت کے نتیجہ میں نہیں آئے بلکہ دوسرے سطح کی فوجی قیادت ، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کی مدد سے آئے ہیں۔ سوڈان کے آخری فوجی انقلاب کی قیادت بھی بریگیڈئر عمر البشیر نے کی تھی اس سے قبل فوجی انقلاب کی قیادت جعفر نمیری کی تھی وہ بھی سوڈانی فوج کی صف اول کی قیادت میں سے نہیں تھے۔ آج سوڈان کی شاہرات پر خون کی ہولی ملکی و قومی مفاد میں نہیں کھیلی جا رہی ہے بلکہ دو جنرلز جنر ل عبد الفتاح برہان عبوری صدر اور عبوری نائب صدر جنرل حمدان دقلو (عرف حمیدتی) عالمی مفادات کے حصول کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں دونوں کے اثاثے ملین ڈالرز میں ہیں۔ سعودی عرب کی ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ صلح کے بعد عرب ممالک میں ایک نئی صف بند ی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس وقت سوڈان کے عبوری صدر جنرل عبدالفتاح کو مکمل طور پر مصر کی سرپرستی حاصل ہے ۔مصر کو اسرائیل اور امریکہ غیر اعلانیہ سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عبوری نائب صدر جنرل حمیدتی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ترکی اور قطر کی کوشش ہے کہ وہ اس سارے کھیل میں غیر جانبدار رہیں اور فریقین کو مذاکرات میز پر لائیں لیکن یہ مسئلہ اتنا آسانی سے حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ اس'' گریٹ گیم ''کے ''سٹیک ہولڈرز'' کی نظریں سوڈان کے قدرتی وسائل اور اس کی عسکری قوت پر لگی ہوئی ہیں۔