کیا دشمنی ہے آپ سے جب آپ ہیں امام ہے آپ ہی کے ہاتھ میں جب قوم کی لگام اب تک تو چل رہا ہے فقط آپ کا نظام کہتی ہے ایک دنیا ہمیں آپ کا غلام میرا خیال ہے کہ آپ اتنے سخن فہم ہیں کہ مجھے مندرجہ بالا اشعار کو کھولنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اسے نوحہ یا کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ ہے حقیقت قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی۔ پھر جواب شکوہ بھی ہے کہ غدار سب کے سب ہیں’’ میرے علم ہیں جناب دیوار سے لگایا تو لے دوں گا سب کا نام۔وحشت زدہ سے لوگ ہیں مست خرام بھی۔اپنا کہیں پڑائو نہ اپنا کہیں قیام۔ آمدم برسر مطلب کہ آخر ہو کیا رہا ہے کہ مہنگائی پنتالیس فیصد کو چھو چکی یہ مہنگائی سیلاب ہی کی ایک قسم ہے کہ لوگوں کو غربت و بے کسی میں ڈبوتی ہوئے ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اس کے سوا کیا کہیں کہ سیلاب متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے مگر انہوں نے ساری عوام کو مہنگائی کے سمندر میں ڈبکیاں کھانے کے لئے چھوڑ رکھا ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران کا مداح بھی رہا اور اس کے رویے کا ناقد بھی مگر حضور آپ نے تو حد ہی کر دی ہے زیادہ مثالیں نہیں دوں گا مگر صرف ایک آدھ خان صاحب کے دور میں مہنگائی ہوئی تھی تو یہی کہ اعلان ہوتا کہ پٹرول دس روپے بڑھے گا اور خان صاحب دس کو پانچ کر کے شرماتے ہوئے مسکرا دیتے۔ ہم تھوڑا سا پیچ و تاب کستے ہوئے کہتے کہ پانچ روپے کا فائدہ ہو گیا مگر شہباز حکومت معصومیت کے مقابلے مکار اور چالاک ہے۔ اعلان یہ کرتی ہے کہ پٹرول اٹھارہ روپے فی لٹر کم ہو رہا ہے لوگ بے فکر ہو کر سوتے ہیں کہ صبح پٹرول سستا ہو گا تو ڈلوائیں صبح اٹھتے ہیں تو لگتا ہے شاید اٹھارہ روپے کمی والا تو خواب تھا وہ تو چھ سات روپے مزید مہنگا ہو چکا ہے یہ سراسر دھوکہ دہی ہے۔ مزید دیکھ لیجیے کہ بار بار اخبار میں اعلان کہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کئے جا رہے ہیں اور محکمے کو ہدایت دی جا چکی ہیں پتہ چلا کہ کسی کے پاس کوئی نوٹس نہیں آیا اور ساتھ ہی ایک ٹیکہ اور جڑ دیا گیا کہ بجلی فی یونٹ پانچ روپے بڑھا دی گئی۔ویسے کمال ہی تو کرتے ہیں یہ اتحادی یہ اکٹھے ہو کر قوم پر حملہ آور ہوتے ہیں ان میں سے کسی نے بھی سیلاب زدگان کے لئے جیب ڈھیلی نہیں کی۔اکثر تو باہر سے آنے والی امداد کے منتظر ہیں زرداری صاحب جو چھ چھ گھنٹے شجاعت صاحب کے پاس آ کر بیٹھتے تھے ڈوبنے والوں کے پاس نہیں جا سکے۔ بندہ پوچھے کہ آپ کرنے کیا آئے تھے آپ کو آنے کا شوق کیوں چڑآیا تھا فرماتے ہیں معیشت بچانے آئے تھے سبحان اللہ۔ میرے معزز قارئین آپ کی زندگی میں ایک تجربہ تو ضرور آیا ہو گا کہ کبھی آپ نے کسی کو ڈوبتے دیکھا ہو گا اور پھر اسے کوئی بچانے والا آیا ہو گا تو ڈوبنے والا اندھا دھند سہارا لینے کے لئے ہاتھ ڈالتا ہے کبھی یہ ہاتھ بچانے والے کے کچھ کچھے یعنی نیکر پر بھی پڑ جاتا ہے یہ بے چارے معیشت کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے آئے تھے معیشت انہیں لے ڈوبی۔اب یہ ہاتھ پیر مار رہے ہیں ہاتھ میں کچھ نہیں آ رہا: پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے جب میرے ہاتھ سے کنارا گیا ایک صاحب مفتاح اسماعیل ہیں ۔ کمال یہ ہے کہ وہ ہنستے اور مسکراتے ہوئے ذبح کرتے ہیں اور پوری طرح لطف اٹھاتے ہیں ان کی عینک میں سے بھی ان کی آنکھوں کی چمک نظر آ رہی ہوتی ہے وہ کبھی خیر کی خبر لے کر سکرین پر نہیں آتے انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کی ساری خوشیاں ماند کر دی ہیں اصل میں ن لیگ کو اپنے ہی شیر پر بیٹھنا مہنگا پڑ گیا ہے کہ شیر بدک کر بھاگ کھڑا ہوا ہے۔ اب نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ویسے شیر کے نہ تو رکاب ہوتے ہیں اور اس کی باگ ہوتی ہیں۔ دوسری طرف خان صاحب مکمل یلغار کے موڑ میں ہیں کیوں کہ اس سے زیادہ مثالی صورتحال ہو نہیں سکتی۔ مونس الٰہی کا لب و لہجہ دیکھنے والا ہے فرماتے ہیں عمران نے جب کہا تو شہباز شریف کو اسلام آباد میں بند کر دیں گے۔ بھئی یہ تو بھینسے کو لال رومال دکھانے کے مترادف ہے میں سوچتا رہا کہ یہ دن بھی آنے تھے بہرحال مونس الٰہی ابھی بچے ہیں پرویز الٰہی کی بالغ نظری کو نہیں پہنچے۔میں تو ابھی ایک او مخمصے میں الجھا ہوا ہوں کہ جیسے سیلاب کے پانیوں کے زور کے آگے بڑے بڑے ہوٹل اور عمارتیں تنکوں کی طرح بہہ گئیں اسی طرح یہ صورت گری کی اور طرف غماضی کر رہی ہے اداروں کا وقار دائو پر لگا ہوا ہے ویسے وقار اور اعتبار میں بڑا فرق ہے کاش کہ اعتبار بنایا ہوتا: ربا میرے دیس دی خیر سر تے شور اے کانواں دا آخر میں کالم کو ذرا سخن رنگ کر دیں کہ ایک محفل سخن غازی بابر صاحب کے ہم نے برپا کی ۔ غازی بابر ہمارے محسن ظہیر الدین بابر کے چشم و چراغ ہیں چند اشعار: وہ تو رویا تھا عادتاً گوہر اور ہم نے اجاڑ لی دنیا (انمول گوہر) دل مسافر کو ٹھکانے کی پریشانی ہے اور مجھے خاک اڑانے کی پریشانی ہے پہلے اس دشت میں پانی کی پریشانی تھی اب مجھے نائو بنانے کی پریشانی ہے (سجاد بلوچ) خزاں کے دور میں اتری دھنک بہاروں کی کبھی نہ پھیکا پڑا یاد یار کا موسم (ڈاکٹر خالدہ انور) کوئی قدیم سرائے مجھے بلاتی ہوئی کوئی ستارا مجھے راستہ دکھاتا ہوا پڑے ہوئے تھے گل و مہر و ماہ سروں میں گزر گیا کوئی درویش حمد گاتا ہوا (نذیر قیصر)