یہ اعزاز ،یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو میسر ہے کہ ان کے مال سے حضورﷺبلا تکلف تصرف فرماتے اور دوسرا آپؓ کے گھر میں بلا تامل تشریف فرما ہوتے ، سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضورﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ دن میں ایک بار ہمارے گھر ضرور تشریف لاتے ، کبھی صبح سویرے اور کبھی شام کے وقت ۔ جس روز ہجرت کا اذن ہوا، اس رو ز خلافِ معمول ، آپ ﷺ کو دوپہر کے وقت تشریف لاتے دیکھا ، تو میرے والدِ گرامی ؓ کہنے لگے ،آج کوئی خاص با ت ہے ، کہ حضورﷺ اس وقت تشریف لا رہے ہیں ۔وہ روایت کرتی ہیں کہ حضور ﷺ نے ہمارے گھر میں قدم رنجہ فرمایاتو صدیق اکبر ؓ ازراہِ ادب چار پائی سے پیچھے ہٹ گئے ، رحمتِ کونین ﷺ اس پر استراحت فرما ہوئے ، پھر حضور ﷺ نے تخلیہ چاہا ، تاکہ کچھ راز داری فرما سکیں ۔ صدیق اکبرؓ نے عرض یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو آپ ﷺ کے جانثاروں اور غلاموں کا گھر ہے ، یہ عائشہ اور اسماء آپ کی غلام زادیاں ہیں ، اس کے علاوہ یہاں اور کوئی نہیں ، میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں ! کیا معاملہ ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے نکلنے اورہجرت کرنے کا اِذن دے دیا ہے ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے بصد ادب گزارش کی :’’اے اللہ کے پیارے رسول ﷺ ! اس نیاز مند کو بھی معیت کا شرف عطا ہو ۔فرمایا : ابوبکر ؓ! تم یقینا اس سفر میں میرے ساتھ ہو ۔یہ مثردہ سُن کر حضرت صدیق اکبرؓ کی آنکھوں سے فرط مسرت سے آنسو ٹپک پڑے۔ــ‘‘ حضرت عائشہ فرماتے ہیں :’’بخدا! مجھے آج کے د ن سے پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ خوشی کے موقع پر بھی کوئی روتا ہے ، یہاں تک کہ میں نے اس دن اپنے باپ حضرت ابوبکر ؓ کو روتے ہوئے دیکھا ۔ جب سرکارﷺ نے انہیں اپنے ہمراہ لے جانے کی خوش خبری سے نوازا۔‘‘ پھر عرض کی :’’یا رسول اللہ ﷺ!اس سفر کے لیے یہ دو اونٹنیاں میں نے تیار کر رکھی ہیں ۔‘‘ سفر میں را ہ دکھانے کے لیے عبداللہ بن اریقط کو اجرت پر مقرر کیا گیا ، اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے جن پاکیزہ اور محبت بھرے کلمات سے نوازا ، اس کی خوشبو رہتی دنیا تک محسوس کی جاتی رہے گی ، آپ ﷺ نے فرمایا ! اے ابوبکر ﷺ ! کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تم میرے ساتھ ہو ، جس طرح میری تلاش کی جاتی ہے ، اسی طرح تمہاری تلاش بھی کی جائے اور تم اس بات سے پہچانے جائو کہ جس دین کی میں تبلیغ کررہا ہوں اس پر میری وجہ سے تمہیں طرح طرح کے عذاب دیئے جائیں ۔؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی !یا رسول اللہ ﷺ ! اگر میں اتنی مدت زندہ رہوں ، جتنی دنیا کی عمر ہے ، اس طویل زندگی میں مجھے سخت ترین عذاب دیئے جائیں ، نہ مجھ پر وہ موت نازل ہو، جو مبتلائے عذاب کو راحت پہنچاتی ہے ، اور نہ مجھے ان مصائب سے نجات دی جائے ، اوریہ سب اذیتیں اور عذاب مجھے اس بات سے محبوب تر ہیں کہ میں آپ ﷺ کی مخالفت میں نعمت ومسرت کی زندگی بسر کروں اور دنیاکے سارے بادشاہوں کے ملکوں کا مالک ہوں ۔ میرے بیوی بچے سب حضور ﷺ پر قربان !نبی اکرم ﷺ اپنے عقیدت کیش کا جواب سُن کر خوش ہوئے اور فرمایا : اے ابو بکرؓ ! اللہ تعالیٰ تمہارے دل پر آگاہ ہو گیا اور تیری زبان پر جو کلام جاری ہو ا، اس کو تیرے دل سے بالکل ہم آہنگ پایا ، تجھے میرے لیے بمترلہ کان اور آنکھ کے کردیا۔نیز جسم سے سر کا اور بدن سے روح کا جو تعلق ہے ، تیرا میرا تعلق ہے ۔" سورج آہستہ آہستہ مغربی افق کی اوٹ میں غروب ہونے کے لیے رواں دواں تھا، اور آنے والی شب.... تاریخ ساز رات ،جس کے بعد کائنات ایک نئے نظام اور نئی صبح سے سرفراز ہونے کو تھی ۔ قریش کے منتخب نوجوان ابلیسی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہچانے کے لیے ، اس سادہ سے مکان کی طرف بڑھ رہے تھے ، جہاں اللہ کا محبوب اور کاروانِ انسانیت کا خوش بخت قائد ، ابتلاوآزمائش سے لبریز زندگی بسر کررہا تھا ، خون آشام بے نیام تلواریں ان کے ہاتھوں میں تھیں ۔دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ آج رات اپنے بستر پر حضرت علی ؓ کو سلائیں ،اس کا تعلق آپ کے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے اسحاق کا تعلق حضرت ابراہیم خلیل ؑ سے ۔ حضرت علی ؓ نے اپنے نفس کو آپ کی ذات پر فدا کردیا اوراپنی روح سے آپ کی حفاظت کی ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو فرمایا ! اے علی ؓ تم اس بات پر رضا مند ہو کہ دشمن مجھے تلاش کریں اور نہ پا سکیں اور تجھے پا لیں اور شاید جہالت میں ، جلد بازی کریں، تمہاری طرف دوڑ کر آئیں اور تمہیں قتل کر دیں ۔ عرض کی یار سول اللہ ﷺ ! میں اس بات پر راضی ہوں کہ میری روح حضور ﷺ کی روح مبارک کی حفاظت میں کام آئے اور میرا نفس حضورﷺ کی ذات پر قربان ہوجائے ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ ، حضرت علی ؓ کی طرف ملتفت ہوئے اور فرمایا ـ:اے ابوالحسن ! تیرے اس کلام کی تصدیق لوح محفوظ سے ہوئی ہے ۔ مکہ کے بہادر ،جنگ آزما ،دولت مند اور بار سوخ خاندانوں کے چشم وچراغ ،جو بر ہنہ تلواروں کے ساتھ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں کاشانہ نبوت پر مستند ہے ۔ ان کی بینائی سلب ہوئی ، نیند غالب آگئی اور اللہ کے رسول ﷺ ان کے درمیان میں سے نکلتے ہوئے ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ہمراہی میں غارِ ثور کی طرف روانہ ہوگئے ۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ دن بھر کفار کی دوڑ دھوپ اور نئے منصوبوں سے مطلع رکھنے کے لیے غار کی طرف آنکلیں ،اپنے چرواہے عامربن فہیرہ کو ہدایت کی وہ غار کے گردو نواح میں بکریاں چرائیں اور شام کو غار کے دہانے پہ آئیں اور تازہ دودھ دوھ کر اسے گرم کرکے بار گاہِ رسالت میں پیش کریں ، اور اپنی صاحبزادی حضرت اسماء ؓ کو ارشاد فرمایا کہ ہر رو ز کھانا پکا کر شام کے وقت غار میں پہنچاآیا کرے ۔ مکہ سے نکلتے وقت ہوئے نبی اکرم ﷺ نے جس سوزو گداز اور درد بھرے انداز میں اپنے خالق ومالک کی بار گاہ میں دامن دعا پھیلایا ، وہ بھی ملاحظہ ہو :(ترجمہ ) ’’اے اللہ ! دنیا کی ہولناکیوں ،زمانہ کی تباہ کاریوں اور شب وروز کے مصائب برداشت کرنے پر میری مدد فرما۔‘‘ ’’اے اللہ میرے سفر میں تو میرا ساتھ ہو۔‘‘ ’’میرے اہل وعیال میں تو میرا قائم مقام ہو ۔‘‘ ’’اور جو رزق تو نے مجھے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت ڈال ۔‘‘ ’’اور اپنی جناب میں مجھے عجز ونیاز کی توفیق دے ۔‘‘ ’’اوربہترین اخلاق پر میری تربیت فرما۔‘‘ ’’اے میر ے رب ! مجھے اپنا محبوب بنا لے ۔‘‘ ’’اور مجھے لوگوں کے حوالے نہ کر۔‘‘ ’’اے کمزوروں کے پروردگار! اور تو میرا بھی پرور دگار ہے ۔‘‘ ’’میں تیری ذات کریم کے طفیل جس کی روشنی سے آسمان اور زمین چمک رہے ہیں ۔‘‘ ’’اور جس کی برکت سے اندھیرے دور ہور ہے ہیں ۔‘‘ ’’اور اولین وآخرین کے کام درست ہو گئے ہیں ۔‘‘’’اس امر سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیر اغضب مجھ پر اُترے ۔‘‘’’یانازل کرے تو مجھ پر اپنی ناراضگی ۔‘‘’’میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تیری نعمت زائل ہو جائے ۔‘‘’’اورتیرا غضب اچانک اُ ترپڑے ۔‘‘’’ اور تیری سلامتی کا رخ مجھ سے پھر جائے ۔‘‘’’ تیری رضا میرے نزدیک ہر چیز سے بہتر ہے ۔‘‘’’میرے پاس کوئی طاقت نہیں ، کوئی قوت نہیں بجز تیرے ۔‘‘