تحریک طالبان پاکستان کا نور ولی گروپ باقی گروپوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر رہا ہے۔ان کارروائیوں نے تشدد و دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے اندرجھگڑے پیدا کردیئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان قبائلی علاقوں میں قدم جمانے والے ابتدائی عسکریت پسند گروپوں کی باقیات ہے۔نائن الیون کے بعد 2002 میں پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے غیر ملکی جنگجوؤں کو موقع دیا کہ وہ پر امن زندگی اختیار کریں اور ہتھیار پھینک دیں۔ کچھ نے اس پیشکش سے فائدہ اٹھایا ۔جو سر کشی پر آمادہ ہوئے ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ ان حملوں کے جواب میں، تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان میں اڈے بنائے اور مقامی قبائلی گروہوں میں افغان جہادکے تجربہ کارافراد کو جمع کرکے تنظیم سازی کی ۔ 2004 میں پاکستان نے اپنی افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے وابستہ جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ امریکہ نے بیک وقت ڈرون حملوں کے ذریعے اسی علاقے میں القاعدہ کے مشتبہ ارکان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ بعد کے برسوں میں مزید حملے شروع کیے گئے۔ 2014 میں، پاکستان نے مختلف غیر ریاستی مسلح گروہوں کے خلاف 'انسداد دہشت گردی' آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے محسود افراد نے اصل میں 2003 میں محسود طالبان میں شمولیت اختیار کی تھی۔ محسود طالبان ایک جہادی گروپ ہے جو پاکستان کے قبائلی علاقے میں طالبان کی حکومت کے دوران ابھرا تھا، جو بالآخر بیت اللہ کی قیادت میں 2007 میں ٹی ٹی پی میں شامل ہو گیا تھا۔ محسودگروپ 2013 تک کراچی میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اپنی صفوں میں اضافہ کر چکا تھا۔ میرام شاہ، شمالی وزیرستان میں رہتے ہوئے محسود نے مالدار افراد سے بھتہ خوری اور ان کے اغوا کی کارروائیوں کی ایک سیریز کی کمانڈ کی۔ ان وارداتوں میں وصول کیے گئے تاوان سے پاکستان بھر میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو فنڈز فراہم کرنے میں مدد ملی۔ مزید برآں، محسود نے کراچی میں اپنے حامی پشتونوں کو حکم دیا کہ وہ میرام شاہ میں طالبان کی عدالتوں کے ذریعے اپنے کاروباری تنازعات کا تصفیہ کریں اور جو لوگ اس بات کو ماننے سے انکار کریں گے انہیں ٹی ٹی پی کی جانب سے تشدد سے نشانہ بنایا جائے گا۔ دو روز قبل تحریک طالبان پاکستان نور ولی محسود گروپ نے خوست میں گل بہادر گروپ پر حملے کے بعد جماعت الاحرار پر وار کیا ہے۔ نور ولی محسود نے اسد آفریدی کو قلعہ سیف اللہ حملے بارے ٹی ٹی پی کے راز افشاء کرنے پر ولایت کے منصب سے فوری ہٹا دیا تھا۔ یوں دونوں گروپ ایک دوسرے کے مفادات پر حملہ کر رہے ہیں۔ان کے باہمی تعلقات اس حد تک کشیدہ ہو چکے ہیں کہ مختلف بیانات جاری کرنے پر نورولی محسود نے اسد آفریدی کو راستے سے ہٹانے کیلئے اس کے سر کی قیمت مقرر کی ہے۔ دو روز قبل رات کے وقت محسود گروپ کے کارندوں نے اسد آفریدی کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ جماعت الاحرار کے کمانڈرز نے سربکف مہمند اور عمر خالد خراسانی کے قتل کا ذمے دار بھی نورولی محسود کو قرار دیا تھا۔ مختلف چھوٹے مسلح گروہوں پر مشتمل ایک نسبتاً ڈھیل ڈھالا ڈھانچہ ہونے کے باوجود، ٹی ٹی پی کے پاس مبینہ طور پر ایک باضابطہ مشترکہ قیادت، ایک مرکزی ترجمان اور ایک مشترکہ تعلقات عامہ کی پالیسی ہے۔ تاہم اس ڈھانچے کو بعض اوقات اندرونی تقسیم، ٹوٹ پھوٹ اور اعلیٰ عہدے داروں کے سکیورٹی اداروں کے سامنے رضاکارانہ ہتھیار ڈالنے سے سوالیہ نشان بنا دیا جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی نے کچھ انتہائی بدنام اور بڑے پیمانے پر حملوں کا دعویٰ کیا ہے جیسا کہ 2014 میں پشاور سکول حملہ، باچا خان یونیورسٹی پر حملہ اور کراچی ایئرپورٹ حملہ۔ بعض اوقات، ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنا کنٹرول بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ وادی سوات پر کئی برسوں سے کنٹرول کی آرزو مند ہے۔ ٹی ٹی پی نے زیر زمین سرنگ کے نظام اور آئی ای ڈی کی تیاری کے کارخانے بنائے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے پڑوسی ممالک میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جیسے کہ 2009 میں افغانستان میں سی آئی اے کے اڈے پر حملہ۔ ٹی ٹی پی کا تنظیمی ڈھانچہ پاکستانی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل ہونے کی صلاحیت سے مزید واضح ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ میڈیا کو انٹرویو دیتا ہے۔ اس نے اپنی مسلح سرگرمیوں کی ویڈیوز جاری کی ہیں۔کچھ حصے ٹی ٹی پی سے الگ ہو گئے ہیں، جیسے جماعت الاحرار جس نے ٹی ٹی پی کے کچھ ڈھانچے پر قبضہ کر لیا۔ الاحرار نے حالیہ برسوں میںکچھ مہلک ترین حملے بھی کئے ہیں۔ دیگر بڑے حملوں میں سے کچھ کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔ عسکریت پسند گروپوں کے خلاف قانونی کارروائی کے سلسلے میں کئی قوانین مدد دیتے ہیں۔ریاست اور نان سٹیٹ ایکٹر 1949 کے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 3 کے پابند ہیں جو کم از کم معیار کا احترام کرنے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے اور تمام افراد کے ساتھ منفی امتیاز کیبنا انسانی سلوک کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ یہ قتل، مسخ کرنے، تشدد، ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک، یرغمال بنانے اور غیر منصفانہ مقدمات کی ممانعت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام فریق روایتی بین الاقوامی قانون کے پابند ہیں جو مقامی مسلح تصادم پر لاگو ہوتا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون مسلح تصادم کے دوران لاگو ہوتا رہتا ہے۔ انسانی حقوق کے قانون کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ریاستی عناصر کو روکے اور ان کی تحقیقات کرے۔ افغانستان تشدد پسند گروپوں کی پاکستان میں کارروائیوں کی سختی سے مذمت کر چکا ہے۔پاکستان کے سکیورٹی و انٹیلی جنس ادارے چوکس ہیں۔تشدد پسندگروپوں کے لئے خطے میں ٹھکانے بنانے مشکل ہو رہے ہیں۔ ان میںاس دوران داخلی تنازعات کا تیز ہونا قرین فہم ہے۔