یہاں فاروق ستار کی رہائشگاہ ضرور ہے جو 8 سال تک اس شہر کے میئر رہے، ان کے سبب اس گلی میں کچھ سیاسی افراد کی آمد و رفت رہتی ہے۔ پھر فاروق بھائی کے اپنے چاہنے والے ہیں۔ ہاں یہاں کے گلی کوچوں یا نکڑ پر نسوار کھاتے، بدن کھجاتے اور گٹکا تھوکتے نوجوان ضرور نظر آتے ہیں۔ یہ بھی کیسی بستی تھی۔ یہاں پر کیسے کیسے باصلاحیت اور قیمتی لوگ پیدا ہوئے۔ کراچی کا ہر علاقہ خاص کر ناظم آباد جو ہر قابل پیدا کرنے میں سب سے زیادہ خوش قسمت رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر میں مواقع بڑھے۔ آبادی بڑھی، اس شہر کی جسامت اور قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ سب سے روشنی اور ترقی یافتہ شہر کہلایا۔ یہاں لوگ آتے رہے۔ پورے پاکستان سے آتے رہے۔ یہ شہر اب لبالب بھرچکا ہے۔ اب اس شہر کے اقدار بدل گئے۔ معیار بدل گئے، رنگ ڈھنگ بدل گئے، ہماری زندگیاں بدل گئیں۔ جن لوگوں نے لیاقت آباد میں الاعظم اسکوائر بنتے دیکھا وہ اس وقت حیران بھی تھے کہ ایک چھوٹی سی اراضْی پر کئی منزلہ عمارتوں میں چھوٹے چھوٹے آشیانے بناکر سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو ایک سہل، یکجا اور آرام دہ رہائش دی جاسکتی ہے۔ بسوں کی جگہ ویگنوں نے لے لی۔ ٹرام پٹے غائب ہوگئے۔ بندو خان کے تکے کا چٹخارہ ، برنس روڈ کے وحید کے کباب کا چسکا، حیدری میں مونٹینا آئسکریم کا مزا، پیڑے کے نیچے چار پائیوں میں کھلائی جانے والی ریسٹورینٹ بریانی پختہ اور آرام دہ عمارت میں منتقل ہوکر بھی اپنا ذائقہ برقرار نہ رکھ سکی۔ سب کچھ بدل گیا۔ ہاں کچھ نہیں بدلا تو وہ بسوں اور ویگنوں کے کنڈیکٹروں کی ''استاد ڈبل ہے'' جیسی آوازیں' ان گاڑیوں کی باڈی پر ان کی ہاتھوں کی تھپک اور لپک جیسے چلنے اور رکنے کے اشارے اور صدر'جامع' بولٹن اور ٹاور کی صدائیں نہیں بدلیں۔ یہ آج بھی گزرے کل کی طرح جاری ہیں ۔ کراچی کے مختلف رنگ دیکھنے والے گواہی دیتے ہیں کہ کراچی والوں نے کرب، دل شکستگی اور لاقانونیت کے دور بھی دیکھے اور وہ وقت بھی جب اس شہر میں ناپسندیدہ سرگرمیاں معدوم ہوگئی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب اس شہر اور ملک کے لوگوں کی سماعت سے یہ خبر ٹکرائی کہ ملک میں مارشل لاء نافذ ہوگیا ہے۔ پورے ملک میں تمام سیاسی سرگرمیاں موقوف اور سیاستدان بے عمل ہوگئے۔ صدر اسکندر مرزا اسی وسیع و عریض سرکاری رہائش گاہ میں رہتے تھے جو آج کل گورنر سندھ کی سرکاری رہائشگاہ ہے۔ اس میں ایک کمرہ آج بھی اپنے تمام سامان کیساتھ اسی طرح محفوظ اور لاک ہے۔ یہ ساری چیزیں بابائے قوم کے زیر استعمال رہیں۔ فرنیچر بھی اسی طرح ہے جو قائداعظم کے زیر استعمال تھا۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے میری بڑی خواہش پر اس کمرے کو مجھے دیکھنے کی اجازت دی تھی۔ سب کچھ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کا یہ عظیم لیڈر کس ذوق کے مالک تھا۔ کتنے نفیس انسان تھے۔ وہ بڑا سا درمیانی ڈرائنگ روم بھی موجود ہے جس میں ابتدا میں ملک کے گورنر جنرل اپنی ملاقاتوں کیلئے استعمال کرتے تھے۔ اس کا کارپٹ اور فرنیچر گو کہ بدل گیا ہے۔ وہ آرام دہ ڈبل سیٹر صوفہ بالائی منزل کے کسی کمرے میں رکھا ہے جس پر بیٹھ کر اسکندر مرزا نے اپنے عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کی دستاویز پر دستخط کئے تھے۔ وہ رات بھی اس رہائشگاہ کیلئے بڑی ہنگامہ خیز تھی۔ کچھ ایسی ہی جیسی 12 اکتوبر 1999ء کی رات جب اقتدار کی کنجیاں ایک حکمران سے دوسرے حکمران کو منتقل ہوئیں۔ ان دونوں راتوں میں پاکستان کی مسلح افواج حرکت میں تھیں۔ ایک آپریشن ایوان صدر اور آج کے کراچی میں واقع گورنر ہاؤس میں ہوا تھا اور اس کارروائی کی نگرانی جنرل اعظم کی سربراہی میں جنرل برکی اور جنرل شیخ کررہے تھے۔ اور 1999ء میں اس تبدیلی میں جنرل عزیز، جنرل محمود،جنرل عثمانی بنیادی کردار تھے۔ 1958ء میں اسکندر مرزا کی رہائشگاہ کو فوج نے گھیرا ہوا تھا۔ اور جنرل اعظم صدر اسکندر مرزا کو بتارہے تھے کہ انہیں کہاں دستخط کرنے ہیں اور 1999ء میں نمبر ون جنرل پرویز مشرف ایک ایک ایسے جہاز میں سوار فضاؤں میں تھے جس میں اترتے وقت محض چند منٹ کا پیٹرول رہ گیا تھا اورجہاز کا کپتان مستقبل کے طاقتور حکمران کو بتارہا تھا کہ اگر جہاز کے جلدی اترنے کا فیصلہ نہ ہوا توجہاز کریش ہوجائے گا۔ یہ دونوں آپریشن اسی شہر میں ہوئے تھے۔ 27 اکتوبر کی شب کو ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے سارے اختیارات سنبھال لئے۔ مارشل لاء کے نفاذ سے کراچی کی فضا میں اداسی چھاگئی۔ اس شہر کے لوگوں میں الیکشن کا جو جوش اور جذبہ تھا اس سے سب کے ارمانوں پر اوس پڑگئی۔ یہ کراچی کی فضا میں مارشل لا کا ایک رخ تھا۔ سیاسی حلقوں میں خاص طور پر اس سے مایوسی پیدا ہوئی۔ تمام سیاسی سرگرمیاں یکلخت معدوم ہوگئیں۔ اس کا دوسرا رخ اور پہلو یہ تھا کہ معاشرے کے غیر پسندیدہ عناصر چھپ کر بیٹھ گئے۔ اعلان کیا گیا کہ اگر کوئی قانون یا حکم کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو چودہ برس کیلئے سیدھا جیل جائے گا۔ لوگوں کے ذہن میں 1950ء میں لاہور کے مارشل لا کی سخت اور دہلا دینے والی یادیں ماؤف نہیں ہوئی تھیں۔ اس لئے اس بار ملک بھر میں مارشل لا کے نفاذ نے پاکستان بھر کی طرح کراچی کے لوگوں کو سہما اور خائف کردیا تھا۔ اس نڈر شہر میں بھی کسی کے اندر خلاف ورزی کی جرات پیدا نہیں ہوئی۔ سیاسی رہنما اور بلند بانگ دعوے کرنے والے سب دبک کر بیٹھ گئے۔ حکم ہوا کہ کسی گھر یا دکان کے باہر کوڑا کرکٹ نہ پھینکے، خلاف ورزی کرنے والے کو 12 سال تک جیل جانا پڑے گا۔ اس وقت ہر جگہ پان کی پیکیں اور سگریٹوں کے ٹوٹے ہر طرف نظر آتے تھے۔ شہریت کے کوئی اصول کار فرما نہیں تھے۔ یہ وقت تھا جب کوئی پان والے یا سگریٹ والے سے کوئی یہ لیتا تو وہ گاہک سے ہاتھ جوڑ کر کہتا کہ بھائی اس کا شغل آگے جاکر کرنا۔ گوشت مارکیٹ،دودھ، دہی کی دکانوں اور گلی کوچوں کے عام چائے خانوں کو حکم دیا کہ باریک جالیاں لگوائیں، کہیں کسی دکان پر مکھی مچھر بھٹکتے نظر آئے یا صفائی کا فقدان پایا گیا تو بارہ سال کی قید اس کی منتظر تھی۔ اس میں کس کی مجال تھی کہ کوئی ان احکامات کی سرتابی کرتا۔ معراج محمد خان بتاتے تھے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے یاد ہے کہ ایوب کا ڈنڈا چل رہا تھا کہ کراچی بدل کر رہ گیا۔صاف ستھرے محلے اور ہر طرف چمکیلی سڑکیں نظر آنے لگیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مارشل لا کے بعد سب سے بڑا کام مہاجرین کی آبادی کے سلسلے میں ہوا۔ وہ لوگ جو خاص طور پر قائدآباد کی بستی میں رہ رہے تھے جہاں شہری اور رہائشی سہولتوں کا فقدان تھا۔ ان کی مشکلات اور صعوبتوں کا سیاسی حکومتوں کو بھی احساس رہا تھا۔ اس پر خاص کام بھی ہوا تھا۔ ڈرگ کالونی بن چکی تھی۔ لہٰذا قائد آباد کے مکینوں کیلئے کورنگی کے نام سے بستی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ شروع میں طے ہوا کہ پہلے فیز میں کورنگی میں پانچ سو کوارٹر بنائے جائیں گے۔ کام تو شروع ہوا لیکن اس کی رفتار بہت کم تھی۔ پھر یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوا اور قائد آباد کی جھونپڑیوں کے مکین اپنی آبادکاری کا انتظار کرتے رہے۔ (جاری ہے)