ہمارے قومی نشریاتی ادارے میں اب اتنا دَم خَم تو نہیں، البتہ ان کے کنڑولر عمران صدیقی چونکہ ایک انتظامی کے ساتھ تخلیقی آدمی بھی ہیں،ایسے لوگوں میں Initiative اور ابتداء کاری کا جذبہ اور داعیہ تو کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی درجے موجود ہی رہتا ہے،بہر حال انہوں نے حضرتِ اقبالؒ کے 144ویں یوم ولادت کے موقع پر خصوصی پروگرام کے لیے ’’مزارِ اقبال‘‘کا انتخاب کر ڈالا،مزارِ اقبال ایک تو مستقل بنیادوں پر"Under Threat"ہونے کے سبب،رینجرز کی خصوصی نگہداشت میں ہوتا ہے،تو ایسے میں وہاں تک رسائی اوروہ بھی ایک پروگرام کے اہتمام و انعقاد کے لیے۔۔۔ ،دوسرا اس محل وقوع میںبہت سی سرکاری اتھارٹیز جلوہ آراء ہیں،بادشاہی مسجد اورعلماء اکیڈمی کی ایڈمنسٹریشن،اوقاف پنجاب کے پاس ہے،شاہی قلعہ پر ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی کی حکومت ،جبکہ’’حضوری باغ‘‘لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کے زیر نگیں،اور آرائشی لائٹس وغیرہ ڈائریکٹر کنزرویشن کے کنڑول میں،اور یہاں تک پہنچنے کا راستہ گریٹر اقبال پارک سے ہوتے ہوئے گوردوارہ ڈیرہ صاحب کے سامنے سے ممکن ہے،یہ سارے مراحل طے کرنا اتنا بھی آسان نہیں، لیکن: ایسی مشکل تو نہیں، دشتِ وفا کی تسخیر سَر میں سودا بھی تو ہو، دل میں ارادہ بھی تو ہو بہرحال اس پروگرام کے لیے اس سے بہتر’’لوکیشن‘‘تو ممکن ہی نہ تھی،سہیل احمدصاحب اور ان کی پوری ٹیم نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کا اہتمام وانصرام کیا،اسی بہانے ان کی’’او،بی‘‘سمیت دیگر آلات حرب وضرب کو باہر کی ہوابھی لگ گئی،ان کی کارکردگی اور کارگزاری بھی مستعدو مستند اور معتبر قرار پا گئی۔مستزادیہ کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر سمیت سکالرز کے عمدہ پینل کی دستیابی کو ممکن بنایا گیا اور گویا مزارِ اقبال کے پہلو،تاریخی شاہی قلعہ سے متصل اور حضوری باغ کے سبزے اور شادابی سے آراستہ سولہ قطعات اور پھر اس کی بارہ دری،اور اس میں ڈھلتی شب کا سکوت اور سکون،گویا سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کرنے ،اور مزارِ اقبال پر حاضری اور پروگرام کی ترتیب و تزئین ایک یادگار سا معاملہ ہو گیا۔پھر اسی پر بس نہیں،بلکہ صاحبانِ علم و تحقیق کے درمیان یوم اقبال اورحضرت اقبال کے یوم ولادت کے حوالے سے ایک خوشگوار گفتگو بھی رہی، جس کے مطابق،اس ضمن میں کیا کیا اختلافات ظہور پذیر ہوئے اور انکا دائرہ محض تاریخ پیدائش کی حد تک ہی نہیں بلکہ اس ضمن میں اقبالیات کے مختلف ماہرین 1870ء ، 1873ئ، 1875ئ، 1876ئ، اور 1877ء کے سنین کو،علامہ کے سالِ ولادت کے طور پر مستند و معتبر گردانتے رہے،تاآنکہ 1969ء میں بزم اقبال لاہور نے اس پر ایک کمیٹی تشکیل دے دی،جس میں جسٹس ایس اے رحمن، سید نذیر نیازی، پروفیسر حمید احمد خاں، ڈاکٹر وحید قریشی وغیرہ شامل تھے،یہ کمیٹی کسی خاص نتیجہ پر نہ پہنچ سکی، چنانچہ1973ء میں،حکومت پاکستان کی طرف سے ایک اور کمیٹی،جس کے کنونیئر ڈاکٹر محمد اجمل، سیکرٹری وزارت تعلیم بنے، قائم ہوئی،دوسری طرف ہندوستان میں، 1973ء میں علامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت منانے کا اعلان کر کے، ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ادھر حکومت پاکستان نے، سرکاری طور پر سال1977ء کو،علامہ کے جشن صد سالہ کے طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایک قومی کمیٹی قائم کر دی، اگرچہ وہ حکومت،جس نے یہ اعلان کیا،اسکا اقتدار جولائی 1977ء میں ختم ہو گیا،یہ ساری کارگزاری جنرل محمد ضیاء الحق کے حصّے میں آگئی۔ ویسے تو’’یوم ِ اقبال‘‘کی روایت حضرت اقبال کی زندگی میں ہی شروع ہوگئی تھی۔24مارچ1940ء کو پنجاب یونیورسٹی میں یومِ اقبال ؒ کی تقریب میں،حضرت قائد اعظم نے،حکیم الامت کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:ایک انگریز سے کسی نے کہا :برطانوی سلطنت اور شکسپئیرمیں سے کسی ایک کا انتخاب کر لو،اس نے جواب دیا کہ میں شکسپیئر کو ترجیح دیتا ہوں۔حضرتِ قائداعظم نے فرمایاتھا کہ :میر ے پاس کوئی سلطنت ہوتی اور مجھ سے کہا جاتا کہ اقبالؒ اور سلطنت میں سے کسی ایک کو چن لو ،تو میں اقبالؒ کو چنتا۔حضرتِ قائداعظم کے اس جملے پر یونیورسٹی ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا ، اسی طرح اس سے اگلے برس یوم اقبالؒ کی تقریب 02مارچ1941ء کو اسی یونیورسٹی ہال میں منعقد ہوئی،جسکے صدر سرشاہنواز ممدوٹ تھے،جسمیں حضرت قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :اگر میں اس مبارک تقریب میں شامل نہ ہوتا تو اپنی ذات کے ساتھ بڑی ناانصافی کرتا،میں اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے ا س جلسے میں شامل ہو کر حضرت علامہ اقبالؒ کو عقیدت کے پھول پیش کرنے کا موقع ملا ۔آپ نے مزید فرمایا :اقبال ؒ کی ادبی شہرت عالمگیر ہے ۔ وہ مشرق کے بہت بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم ہیں۔لیکن اس حقیقت کو بھی میں ہی سمجھتا ہوں کہ حضرت علامہ اقبال ؒ دنیا کے بہت بڑے سیاستدان تھے۔انہوں نے ایک صحیح اور واضح راستہ ہمارے سامنے رکھ دیا،جس سے بہتر دوسرا اور کوئی راستہ نہیں ہوسکتا۔علامہ اقبال ؒ دور حاضرہ میں اسلام کے بہترین شارح ہیں۔کیونکہ اس زمانے میں اقبالؒ سے بہتر،اسلام کو کسی شخص نہ نہیں سمجھا۔مجھے اس امر پر فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے۔ حضرت قائداعظم نے قرار داد پاکستان لاہور، 23مارچ 1940ء کی منظوری کے دوسرے روز،لاہور ہی میں،اپنی محفل میں یہ بات بھی دوہرائی کہ :آج علامہ اقبال ؒ زندہ ہوتے تو یقینا انہیں خوشی ہوتی کہ بالآخر ہم نے وہی کچھ کیا ہے جو وہ چاہتے تھے یعنی قائداعظم خود کو اقبالؒ کی قیادت میں کام کرنے والا سپاہی جبکہ دوسری طرف،علامہ اقبال ؒ خود کو جناح کاسپاہی ہونے اور بنانے میں فخر محسوس کرتے،ایک مرتبہ پنڈت جواہر لال نہر و ،حضرتِ اقبالؒ کو قائد اعظم سے ٹکرانا اور متصادم کرنا چاہتے تھے،تاکہ مسلمان منتشر ہو جائیں،وہ حضرت اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا، ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد ، نہر و کہنے لگا :جناح بڑا ضدی ہے ، ہندو اور مسلمان سب آپ ؒ سے محبت کرتے ہیں ،ان کی جگہ اگر آپؒ ہوں، تو ہندو مسلم دونوں آپؒ کی قیادت میں جمع ہو جائیں گے۔حضرتِ اقبالؒ بیماری کے سبب لیٹے ہوئے تھے ، یہ سُنا تو ایک دم اُٹھ کھڑے ہوئے ، چہرہ غصّے سے تمتما اُٹھا اور فرمایا :"دیکھو ! میں جناح کاادنیٰ سپاہی ہوں ، او رمجھے اپنے اس ادنی سپاہی ہونے پر فخر ہے ۔" پنڈت جواہر لال کویقینا اس امر کااس طرح ادراک نہ تھا ،کہ حضرتِ اقبالؒ کس مومنانہ بصیرت کی حامل ہستی ہیں ، وہ انہیں محض شاعر ، فلسفی اور دانشور سمجھ کر اپنا تُرپ کا پتاپھینک گیا،اس نے فارسی پڑھی ہوتی تو اُسے حضرت اقبالؒ کے برہمن کے بارے میں خیالات وافکار کا ادراک ہوتا، جس میں وہ فرماتے ہیں کہ : نگاہ دارد برہمن کارِ خود را/نمی گوید بکس اسرارِ خود را کہ برہمن اپنے دل کابھید اور نیت کا چھید کسی پر ظاہر نہیں کرتا، البتہ اس برہمن کو اس طرح واضح اور مُسکت جواب اور اپنی علالت (1938ئ) کے باوجود بستر سے اُٹھ کر ،جناح کے سپاہی کے طور پر فخر کااظہار، پنڈت نہرو کو ہلا کر رکھ گیا۔