میں نے اور بانو نے کسی نہ کسی طرح شاردا کو فیصل آباد کے ایک ہاسپٹل پہنچایا جو اس وقت بہت ضروری تھا ۔ میں نے جب اس کے سینے سے کان لگائے تھے تو محسوس ہوگیا تھا کہ اس کے دل کی دھڑکنیں نا ہم وار تھیں۔ میں نے سوچا تھا کہ جیسے ہی شاردا کی حالت کچھ سنبھلے گی ، اسے ایر ایمبولینس سے لاہور کے کسی اچھے ہاسپٹل میں منتقل کرادینا بہتر ہوگا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ فیصل آباد ہی کے اسپتال میں اس کی حالت اتنی سنبھل گئی کہ اسے لاہور لے جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ ’’یہ چند دن میں بالکل ٹھیک ہوجائیں گی ۔‘‘ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا تھا ۔ پھر میں اور بانو ، شاردا سے ملنے گئیں کیوں کہ اسے ہوش آچکا تھا۔ ’’اس کا میڈیکل کرانے کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘ بانو نے مجھ سے دھیمی آواز میں کہا۔’’جو کچھ اس کے ساتھ ہوچکا ہے ، وہ ہماری سمجھ میں آچکا ہے ، اور اس سلسلے میں کسی پر مقدمہ کرنا تو حماقت ہوگی ۔‘‘ ’’جی۔‘‘ میں اداس تھی ، کیوں کہ میں خود کو شاردا کی اس حالت کا ذمے دار سمجھ رہی تھی ۔ شاردا نے جب مجھے اپنے سامنے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ دو دن میں وہ بالکل ٹھیک ہوگئی ۔ اس دوران میں مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ کتوں والی سرکار کے علاقے میں آپریشن دو گھنٹے جاری رہا تھا ۔ ستر کے قریب دہشت گرد مارے گئے تھے اور باقی فرار ہوگئے تھے ۔ اس کی خبر میڈیا پر نہیں آئی تھی ۔ ایس آئی ایس اپنی سرگرمیوں کو پوشیدہ رکھتی ہے ۔ اگر کسی صحافی کو کسی طرح خبر مل ہی جاتی ہے تو ایس آئی ایس اسے دبوادیتی ہے ، مسٹر داراب کو میں نے فون پر شاردا کے بارے میں بتادیا تھا ۔ مسٹر داراب نے مجھے بتایا تھا کہ حویلی کی آگ پر اس وقت قابو پایا جاسکا تھا جب وہ کھنڈر بن چکی تھی ۔ شاردا کے والدین ہی نہیں ، دیگر عزیز بھی جل مرے تھے ۔ شاردا کو اس سے بے خبر نہیں رکھا جاسکتا تھا حالانکہ یہ اس کے لیے ایک روح فرسا خبر تھی ۔ اس دن وہ بار بار پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی ۔ میں اسے راولپنڈی اپنے گھر لے آئی ایک دن رونے کے بعد دوسرے دن اسے چپ لگ گئی ۔ چہرہ بھی سپاٹ نظر آنے لگا ۔ میں نے اپنی بہنوں کو تاکید کی تھی کہ اس کی دل جوئی کی ہر ممکن کوشش کریں۔میرے والدین بھی اس سے اس طرح پیش آئے جیسے ان کے گھر میں ایک اور بیٹی کا اضافہ ہوگیا ہو ۔ میں نے انھیںشاردا کے بارے میں سب کچھ بتادیا تھا ۔ ان کے دلوں میں شاردا کے لیے درد پیدا ہوگیا تھا ۔ اسی دوران میں مسٹر داراب سے یہ بات ہوئی کہ میں اس وادی کا سراغ لگانے کے لیے وزیرستان جانا چاہتی تھی جس کے بارے میں علی محمد سے معلوم ہوا تھا ۔ آپریشن ضربِ عضب ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر جاری تھا اور کوئی ایجنسی ابھی تک اس وادی کا سراغ نہیں لگاسکی تھی ۔ میرے ادارے نے بھی اب تک اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا تھا ۔ مسٹر داراب نے مجھ سے کہا ۔’’ بگ پرسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ انھوںنے تمھیں وزیرستان جانے کی اجازت دے دی ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ تمھارا اکیلا جانا مناسب نہیں ہوگا ۔ تمھارے ساتھ تین مرد کیپٹن بھی جائیں گے۔ اس مہم پر زیادہ افراد کا جانا مناسب نہیں ہوگا ۔ مجھے اب ایسے تین افراد کا انتخاب کرنا ہے جو پشتو جانتے ہوں اور اہل زبان کی طرح بول بھی سکتے ہوں ۔ تمھیںبھی پشتو سیکھنی ہوگی ۔‘‘ بانو بھی مجھ سے یہ بات کہہ چکی تھیں ۔ میں کیوں کہ اپنے نانا سے فارسی پڑھ چکی ہوں اس لیے بانو کا خیال تھا کہ اگر بہت زیادہ محنت کروں تو وہ مجھے ایک ہفتے میںپشتو سکھادیں گی ۔ ’’ وہ میں بہت جلدی سیکھ لوں گی مسٹر داراب ! آٹھ دن سے زیادہ نہیں لگیں گے۔‘‘میں نے کہا ۔’’بانو مجھے سکھا دیں گی ۔‘‘ ’’وہ ایک غیر معمولی خاتون ہیں ‘‘ ۔ مسٹر داراب نے کہا ‘‘۔ انھوں نے کئی مرتبہ ہمارے محکمے کو بڑی اہم معلومات فراہم کی ہیں ۔ یہ بہت اچھا ہے کہ ان سے تمھارے گہرے تعلقات ہیں ‘‘ ۔ ’’اس مہم کو لیڈ کون کرے گا؟‘‘ میں نے پوچھا تھا ۔ ’’بگ پرسن نے کہا ہے کہ اسے تم ہی لیڈ کروگی ‘‘ ۔ میں خوش ہوگئی تھی اور میں نے بانو کو بھی اس سے آگاہ کردیا تھا ۔ اسی دن سے میں نے پشتو سیکھنی بھی شروع کردی ۔ ایک دن شاردا نے خود ہی ’’چپ کا روزہ‘‘ توڑا ، مجھ سے بولی ۔’’تمھارا تعلق کسی ادارے سے ہے صدف ؟‘‘ جھنگ میں تم نے جو کچھ کیا، وہ کوئی ایسا ہی فرد کر سکتا ہے جس کا تعلق کسی ایجنسی سے ہو ۔‘‘ میں نے ایک طویل سانس لے کر اس کا اعتراف کیا تو شاردا بولی ۔ ’’مجھے بھی اسی ادارے میں شامل کروادو ۔‘‘ ’’ تم یہ کیوں چاہتی ہو ؟‘‘ ’’ اب میں زندگی کیسے گزاروں گی ! ‘‘ شاردا کی آواز بھرا گئی ۔’’ میرا کچھ بھی تو نہیں بچا ہے ۔ماں باپ رخصت ہو گئے دنیا سے !…میں پانچ افراد کی ہوس کا نشانہ بن چکی ہوں ۔ جب اس وقت کا خیال آتا ہے ، میرا خون کھولنے لگتا ہے ۔ وہ پانچوں تو اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ تم نے بتایا تھا کہ بلال رائو اور باختر بھی مارے جا چکے ہیں لیکن ان کے ساتھی تو زندہ ہیں ! میں ان سے اپنی بربادی کا انتقام لینا چاہتی ہوں۔‘‘ مجھے خیال آیا کہ میں بھی عماد کا انتقام لینے ہی کے لیے ایس آئی ایس میں آئی تھی ۔ ’’ابھی میں کوئی وعدہ نہیں کر سکتی شاردا۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’بات کروں گی اپنے افسر سے ! یہ بتادوں تمھیں کہ اس ادارے کی ٹریننگ بہت سخت ہوتی ہے ۔‘‘ ’’غالباً اب میرے لیے کچھ بھی سخت نہیں ہوگا ۔‘‘ ـ میں نے اس کا ذکر بانو سے کیا تو وہ بولیں ۔ ’’تم اس بارے میں مسٹرداراب سے کوئی بات نہ کرو ۔ شاردا کی ٹریننگ کی ذمے داری میری ہوگی ۔‘‘ میں نے ایک لمبی سانس لی ۔ ’’بانو! آخر آپ ہیں کیا ؟‘‘ میں اس بارے میں مزید بات نہ کرسکی ۔ بانو نے بڑی محبت سے میرے ہونٹ بند کردیے ، پھر کہا ۔ ’’وہ وقت بھی آئے گا جب تم میرے بارے میں بہت کچھ جان لوگی ۔ ابھی تو تم جلدی سے پشتو سیکھو۔ ‘‘ ’’آپ کتنی زبانیں جانتی ہیں بانو؟‘‘ ’’اگر میں یہ جواب دوں کہ میں دنیا کی ہر زبان جانتی ہوں اور اہل زبان کی طرح بول سکتی ہوں تو تمھارے دماغ میں پھر سے میرے بارے میں سوالات چکرانے لگیں گے ۔ تم وہ سوالات ذہن سے جھٹک دو اور یک سوئی سے پشتو سیکھنا شروع کرو۔‘‘ میں نے بانو کی بات مان لی ۔ اور یہ میری ذہانت کی بات نہیں ، بانو کا کمال ہے کہ میں بہت جلد کسی اہل زبان کی طرح پشتو بولنے کے قابل ہوگئی ۔ اسی دوران میں شاردا کو میں نے تربیت کے لیے بانو کے حوالے کردیا تھا ۔ پھر وہ دن بھی آگیا جب مجھے وزیرستان کے لیے روانہ ہونا تھا ۔ بعد کے حالات سے صدف کس طرح نبردآزماہوئی ؟ یہ آئندہ اقساط میں پڑھیے ! ٭٭