جمہوری معاشروں میں صحافی سیاسی رہنمائوں سے ملتے ہیں تو اظہار رائے کی آزادی نشوو نما پاتی ہے۔ہمارے ہاں صحافی سیاست دانوں سے ملتے ہیں اور دونوں اپنے اپنے ذاتی مفادات کی فکر میں ہوتے ہیں، سکینڈل بنتے ہیں ۔بیس بائیس برس کے کیرئیر میں کبھی کسی برسر اقتدار شخصیت سے چھپ چھپا کر ملاقات نہیں کی۔ یوسف رضا گیلانی تھے جنہوں نے بطور وزیر اعظم لاہور میں اپنے گھر مدعو کیا، ساتھ نجم سیٹھی ، عبدالقادر حسن، مستنصر حسین تارڑ ، امجد اسلام امجد ،قدرت اللہ چودھری اور پاء طفیل تھے ۔اس ملاقات کے بعد گیلانی صاحب سے فون یا بالمشافہ کبھی ملاقات نہیں کی،ان کا ایک سٹاف افسر چند دن پوچھتا رہا کہ کوئی کام ہے تو بتائیں۔ایک بار وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملا، تب بھی پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہا تھا ۔عمران خان سے 2008ء میں ان کے گھر ملاقات ہوئی۔ نذیر ناجی‘ عباس اطہر اور اطہر ندیم صاحب جیسے سینئر موجود تھے۔ان سب کی شفقت کہ مجھے پہلے بولنے کا موقع دیا۔اس کے بعد کبھی عمران خان سے نہیں ملا۔تخت سے اترنے کے بعد دو بار ان کے رفقا نے مدعو کیا۔شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی۔چند ماہ پہلے صدر عارف علوی کے ساتھ گورنر ہائوس میں کوئی دو سو صحافیوں کی ملاقات ہوئی۔ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ یہ ملاقات مجھے اس لئے مناسب لگی کہ صدر مملکت مفاہمت کے لئے کردار ادا کرنا چاہتے تھے اور میں ان کے خیالات سے براہ راست آگاہی چاہتا تھا۔لاہور شہر میں رہتے ہوئے کبھی نواز شریف‘ شہباز شریف یا ان کے کسی رفیق سے ملاقات نہیں کی۔جو ملتے رہے ان کی حالت بدل گئی ۔ جب نواز شریف سعودی عرب میں جلا وطن تھے تو میرے کالموں پر شکریہ بھیجا۔فرخ شاہ اس وقت شہباز شریف کے سیاسی معاون تھے۔ فرخ شاہ نے مجھے پوچھا کہ میاں صاحب پوچھ رہے ہیں کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔میں نے شکریہ کہہ دیا۔میں جنہیں بہترین سیاستدان سمجھتا تھا ان سے بہت بار ملا۔نواب زادہ نصراللہ خان‘ ڈاکٹر مبشر حسن۔ جو سیاستدان جمہوری اقدار کی تشریح اپنے بدلتے مفاد کے ساتھ بدلتا رہے میرا اس کے ساتھ تعلق نہیں بنتا۔ وہ لوگ بھی ایک آدھ ملاقات کے بعد کوئی اپنے جیسا ’’بالغ نظر‘‘ اور ’’مشہور صحافی‘‘ تلاش کر لیتے ہیں۔برادرم مظہر برلاس میرا ایک قصہ بڑے دلچسپ انداز میں سنایا کرتے ہیں۔سیاست کی طرح صحافت میں نظریاتی چیز اب کوئی نہیں رہی۔ جس روز نظریات کی مارکیٹ اوپر جانے لگی آپ دیکھیں گے کہ سارے نامور صحافی راتوں رات جمہوری و نظریاتی بن جائیں گے، ابھی یہ خسارے کا سودا ہے۔ اتنی بہت سی تمہید کے ساتھ ایک ارتقائی حقیقت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ہم جمہوریت کو ایک پکا پکایا پھل سمجھتے ہیں۔ انگریز دور کے ضابطوں کو عوام پر مسلط کر دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں نے کبھی پارلیمنٹ کو طاقتور بنانے کی جنگ لڑی ہی نہیں اس لئے وزیر اعظم بے اختیار رہتا ہے۔ اداروں کے درمیان اختیارات تقسیم کر دیے گئے لیکن انتظامیہ‘ مقننہ ‘ عدلیہ اور ریاستی ادارے آج بھی ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تقسیم اختیارات میں ابہام کے نتائج قوم نے کبھی دیکھے ہی نہیںتھے۔ مثالی جمہوریت مانگے تانگے کے قوانین سے نہیں اپنی دھرتی پر کاشت ہونے والی فکر اور تجربات کا پھل ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی پاکستان کے لئے کچھ کر سکی یا نہ کر سکی لیکن ایک احسان کر رہی ہے کہ اس نے معاشرے کے نمایاں چہروں کی جمہوریت کے متعلق اصل سوچ کو بے نقاب کر دیا ہے۔1973ء کے آئین کے نام پر استحصالی طبقات نے اپنا شکنجہ جس طرح جما رکھا ہے وہ ڈھیلا ہو رہا ہے۔اس بدلتی سوچ نے یہ دن دکھایا کہ دانشور سیاستدان قمر الزماں کائرہ بھی 90روز کے اندر اسمبلی کے انتخابات نہ کرانے کا جواز حالات بتا رہے ہیں۔یعنی مصنوعی حالات آئین سے بالاتر بنا دیے گئے۔ جمہوریت کا تازہ جھونکا سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیار پر پارلیمنٹ کی قانون سازی ہے۔اس قانون کو پی ڈی ایم حکومت اپنے غیر جمہوری اقدامات کو تحفظ دینے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔پی ڈی ایم پہلے بھی ایسا بہت کچھ کر چکی اور جب تک اس کی حکومت ہے یہ کرتی ر ہے گی۔لیکن مجھے وہ وقت یاد ہے جب نواز شریف کی ہیوی مینڈیٹ حکومت نے اسمبلی کی تحلیل سے متعلق صدر کے اختیارات کم کرنے پر قانون سازی کا سوچا۔دراصل نواز شریف اپنی حکومت کو بچانا چاہتے تھے۔اسٹیبلشمنٹ کا زور تھا نواز شریف بچ نہ سکے اور پرویز مشرف نے انہیں ہٹا دیا۔ اس تجربے کی بنا پر پی پی اور ن لیگ 2010ء میں جب اٹھارویں ترمیم لائیں تو صدر سے 58۔ٹو بی چھین لی۔ جسٹس سجاد علی شاہ اور موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے متعلق نواز لیگ کا لہجہ قابل تعریف نہیں۔نواز لیگ اپنے کام آنے والے ججوں کو بعداز ریٹائر منٹ نوازنے کا ریکارڈ رکھتی ہے۔نئی قانون سازی سردست پی ٹی آئی اور عدلیہ کو غیر مناسب معلوم ہو رہی ہے۔حقیقت میں یہ قانون پی ڈی ایم کو بچانے کے لئے ہی بنایا گیا ہے لیکن چند ماہ بعد پی ڈی ایم کا حوالہ رہے گا نہ جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس رہیں گے۔ممکن ہے طاقت کے کچھ دوسرے مراکز کی سوچ بھی بدل چکی ہو۔تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف اسی طرح رہا تو وہ اقتدار میں ہو گی۔تحریک انصاف کو تب اس قانون کا فائدہ ہو گا۔ جس طرح پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اختیار ختم کر کے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا گیا اسی طرح عدلیہ کی جانب سے خطرات کے امکانات کم ہونے سے پارلیمنٹ پہلے سے مضبوط ہو گی۔سیاسی تبصرہ نگار اسے درپیش صورتحال کے تناظر میں ایک نامعقول فیصلہ کہہ سکتے ہیں لیکن ڈیمو کریٹ فکر صدیوں کی جدوجہد کو سامنے رکھتی ہے۔جمہوریت اسی طرح قدم قدم آگے بڑھتی ہے۔آج تحریک انصاف جس قانون کی مخالفت کر رہی ہے کل تاریخ میں یہ لکھا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی جمہوری جدوجہد کا راستہ روکنے کے لئے ’’پاکٹ یونین‘‘ نے جو قانون بنایا وہ A Blessig in disguiseثابت ہوا۔