چوبیس(24) جون کے کالم ’’آ جائو سب کے سب‘‘ پر بہت سے دوستوں نے تبصرے کئے تقریباً سب ہی نے اظہار پسندیدگی کیا۔البتہ قدسیہ ممتاز کا کہنا تھا آپ نے نام نہیں لکھا۔ہاں نام نہیں لکھے تھے۔ایک بہادر نہ چودہ حریفوں کے ریفری کا نہ انتظامیہ کے نام میں رکھا ہی کیا ہے۔گلاب ‘ گلاب ہے جس نام سے پکارو اس کا رنگ خوشبو اس کی انفرادیت ہے یہی انفرادیت اس کا تعارف۔ وہ تو ایسا کہ پھولوں سے بھری ٹوکری میں رکھو تو وہ سب سے اوپر رنگت‘ تازگی‘ خوشبو‘ شوخی میں سب سے بڑھ کر سرسبدکہلانے لگتا ہے آپ جائیے دوستوں کی محفل یا دشمنوں کی مجلس میں اور سوال کیجیے بھائی اس قوم کا ’’گل سرسبدکون ہے؟ دوستوں کی محفل کھل اٹھے گی اور دشمنوں کے چہرے سیاہ پڑ جائیں مگر دونوں کی آنکھوں میں ایک ہی تصویر ابھرے گی اور دل و دماغ میں بھی اسی ایک نام کی گونج ہو گی آج سے آپ اسے گل سر سبد کہہ لیجیے ہاں یہ بھی چلے گا بلکہ موزوں رہے گا نام نہیں لکھا کہ : خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو میر صاحب بھی تو کہتے ہیں: لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا اور ملکائوں کی ملکہ نورجہاں : عندلیب ناداں دربند گلو فروبند نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارد آپ نے مرغے والی بڑھیا کی کہانی سن رکھی ہو گی گائوں میں ایک بڑھیا رہتی تھی اس نے ایک مرغ پال رکھا تھا پورے گائوں میں بس یہی ایک مرغ تھا۔علی الصبح جونہی مرغ بانگ دیتا لوگ سمجھ جاتے کہ صبح قریب ہے سب جاگ جاتے اپنے اوزار اور ڈھورڈنگر لے کر کھیتوں کو نکل کھڑے ہوتے تھے پھر یوں ہوا کہ تنک مزاج بڑھیا کسی بات پر گائوں والوں سے ناراض ہوئی۔ اس نے اپنا کل اثاثہ یعنی مرغا بغل میں دبایا اور گائوں والوں کو دھمکی دے کر چل دی کہ اب میں دیکھوں گی میرے مرغ کی بانگ کے بغیر اس گائوں میں صبح کیسے ہوتی ہے۔بڑھیا کا خیال تھا سورج کی چال اس کے مرغ کی بانگ کے ساتھ بندھی ہے مرغ بانگ دے نہ صبح طلوع ہو گی۔آج کل ہمارے ہاں جدید دور کے سو پچاس مرغے ہیں۔جنہیں ہم اردو میں ذرائع ابلاغ کہہ کر پکارتے ہیں پرویز مشرف کا جب طوطی بولتا تھا اس نے یہ سب مرغ اپنی پسند کے مطابق بانٹ دیے اب کے بار یہ ہوا کہ یہ بڑھیائیں اپنے گائوں (پاکستان) سے ناراض تو نہیں ہوئیں لیکن گائوں کے چوہدری نے انہیں بلا بھیجا اور کہا یہ تمہارے مرغے ہمارے آرام میں خلل ڈالتے ہیں ان کی زبانیں بند کرو مرغ کی طرح بانگ دینا بند کریں بھلے مرغی کی طرح انڈے دیں۔چوزے نکالیں یا کڑک بیٹھ رہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔سو آج کل مشرف کے بخشے ہوئے مرغ کڑک پر چلے گئے ہیں۔پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک پرندہ ہے ہماری پنجابی زبان میں اسے ’’ٹیڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ شور بہت کرتی ہے۔اس کی تیکھی آواز کوّے سے بھی زیادہ کان میں چھری سی جا لگتی ہے‘بہت ہی دبلی لمبی لمبی ٹانگیں اس پرندے کے بارے میں ایک کہانی مشہور ہے کہ جن دنوں مادہ ٹیڑی نے انڈے دیے ہوتے ہیں اور وہ بچوں کے لئے انڈے سیتی ہے تو نر ٹیڑی راتوں کو اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف بلند کر کے سویا کرتا ہے مبادا رات کو آسمان گر جائے تو وہ آسمان کا بوجھ اپنی ٹانگوں پر سہارے رکھے تاکہ اس کی مادہ ٹیڑی اور نوزائیدہ بچے اس آفت سے محفوظ رہیں۔مرغان جدید(ذرائع ابلاغ) نے ایک اور غلط فہمی اختیار کر رکھی ہے نوکری کرنے والے نام نہاد تجزیہ کار کہتے رہتے ہیں ہم ریاست کا چوتھا ستون ہیں اس لئے چوتھائی ملکیت کے مطابق ہمارے حقوق متعین کئے جائیں۔ سوئے اتفاق ہم نے بھی تاریخ اور سیاسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور قانون کی بھی اگرچہ کسی عدالت میں پیش ہونے کی جسارت نہیں کی اس کام کے لئے مقامی طور پر جمیل گل اور اگر سپریم کورٹ تک جانا ہو جائے تو اکرم شیخ کی خدمات بلا معاوضہ مل جایا کرتی ہیں چنانچہ خود پریکٹس کی زحمت کبھی کی نہیں اگر کبھی ضرورت پڑ گئی تو شیخ رشید کی طرح اپنی وکالت کر ہی لیں گے ویسے اللہ محفوظ رکھے ہر بلا سے‘ آج کل بلائوں کا نزول کچھ زیادہ ہے‘ بات ہو رہی تھی ریاست کے چار ستونوں کی تو وہ ہیں۔1۔ انسانی آبادی۔2۔ جغرافیہ (خطہ زمین) 3۔ اقتدار اعلیٰ 4۔ رائے عامہ (public opinon)جسے (popular opinion)یا اجتماعی رائے کہا جاتا ہے پیغامبرِ پاک محمدؐ نے اسے اجماعّ امت کہا ہے اجتماعی رائے کرایہ کے تجزیہ کاروں کے ہونٹوں سے نہیں پھوٹتی بلکہ یہ عوام کے ووٹ سے ظاہر ہوتی ہے‘ کبھی یہ کراچی کے نشتر پارک‘ ڈھاکہ کے پلٹن میدان‘ لاہور کے موچی دروازے‘ فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں تشکیل پاتی تھی آج کل جب انتخابات سے فرار کی راہیں بھاگ نکلنے کے مقابلے کا میدان بنی ہیں تو اس کا اظہار اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ‘ کراچی میں مزار قائد کے ملحقہ پارک لاہور میں مینار پاکستان اور آخری دنوں زمان پارک میں دیکھنے کو ملا ہے۔سچ مرغ کی بانگ میں مرغی کے کڑک میں نہیں شیر کی دھاڑ میں ہے لوگ بکری کی ممناہٹ میں تلاش کرتے ہیں تازہ ترین رائے (public opinon)جاننے کے لئے وسل 9مئی 2022ء بجا دیا گیا اس کا جواب چوبیس گھنٹے گزرنے سے پہلے رمضان المبارک کے مہینے میں تین کروڑ عوام نے سڑکوں پر نکل کے دیا لیکن شک پھر بھی باقی رہا۔لاہور‘ کراچی‘ ملتان‘ پشاور‘ اسلام آباد‘ بنوں‘ مانسہرہ ‘ پاکستان کے طول و عرض گرمی دھوپ بارش سردی ہر علاقے ہر موسم میں آزما دیکھا آنکھیں اندھی نہیں‘ دل اندھے ہوتے ہیں ساون کے اندھے ہرا ہی ہرا دیکھتے رہے۔پھر سینتیس (37) انتخابی حلقوں میں رن پڑا دیکھنے ہم بھی گئے تھے کہ تماشا نہ ہوا۔80فیصد جی ہاںاسی فیصد انتخابی حلقے کپتان اور اس کے کھلاڑیوں نے بآسانی جیت لئے تب سے آج تک غینم کی صفوں میں صف ماتم بچھی ہے۔آٓدھا کھیل ہو چکا 9اپریل 22سے 9مئی 23تک کا کھیل۔اس کے بعد کھیل ابھی جاری ہے کھیل کے براہ راست نشریات تو پہلے ہی جھلکیوں کی صورت دکھائی جا رہی تھیں۔اب تو سٹیڈیم کے سارے دروازے بند کر دیے گئے کیمرہ تو دور کی بات اندر سے کوئی تماشائی بھی باہر نہیں آ سکتا تاکہ کھیل کا آنکھوں دیکھا حال سب کو پتہ نہ چل سکے۔آدھا کھیل ہو چکا اس کا نتیجہ ہم سب جانتے ہیں پوری دنیا جانتی ہے باقی آدھے کھیل کا نتیجہ؟ہم آسانی سے سوچ سکتے ہیں لیکن حق الیقین کے لئے کھیل کے میدان کے بند دروازے کھلنے کا انتظار کریں جب تماشائی اور کھلاڑی سامنے ہونگے رانا ثناء اللہ کے حلقے سے تعلق رکھنے والے دوست سے ملاقا ت ہوئی بولا ہمارے ڈیرے پر فلیکس لگی تھیں۔ساتھ والے گائوں میں پولیس نے ایک ڈیرے پر چھاپہ مارا فلیکس اتارے ڈیرے کے مالک کو پکڑ کر لے گئی میں نے سنتے ہی فلیکس اتار پھینکی چودھری صاحب اب ہو گا کیا؟ فلیکس کو چھوڑو‘ ووٹ رانا کو دو گے؟ کبھی نہیں ‘ بس یہی کچھ ہو گا؟