کیا بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کی زندگی پہلے سے بہترہو گئی ہے؟کیا مودی جی اتنے بڑے ’سٹیٹس مین ‘ ہو گئے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کو اُن کا خطاب سننے کا اعزازبخشا گیا ہے؟ کیاامریکی مودی جی پر یونہی مر مٹے ہیں؟بر صغیر سے بہتر امریکیوں کو کون جانتا ہے؟امریکہ میں مودی جی کے خطابات سن کربرسوں پہلے چینی صدر کی لاہور میں کی گئی تقریر یاد آگئی۔چین کی خیرہ کن معاشی نمو پر بات کرتے ہوئے بے حد انکساری کے ساتھ جنہوں نے اپنے سامعین کو بتایا تھاکہ قومی دولت میں بے حساب اضافے کے باوجود چین کو ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔عظیم مغلوں کی یادگار شالامار باغ میں چینی صدر نہیں ، چینیوںکی سرشت میں گندھی ہزاروں سال پرانی حکمت بول رہی تھی۔ سینکڑوں مسلمانوں کے منظم قتلِ عام کے لئے ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے مودی جی کو اب سے کچھ برسوں پہلے تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی امریکہ میں مگر آج مودی جی کی راہ میں پلکیں بچھائی گئی ہیں۔اسی بات پر مودی جی پھولے نہیں سما رہے۔کیامودی جی نہیں جانتے کہ بھارت کی موجودہ معاشی ترقی میں انتہا پسندہندئوں کے متروک معاشی اور معاشرتی نظریات کا کوئی ہاتھ نہیں؟ در حقیقت ہندوستان میں جدید سائنسی تعلیم کی بنیاد سال 1817ء میں اس وقت رکھ دی گئی تھی، جب بنارس میں مجوزہ ہندوکالج میں سنسکرت پر مبنی مذہبی تعلیم کی بجائے سائنسی مضامین پڑھائے جانے کا مطالبہ خود ہندوئوں نے کیا تھا۔ آزادی کے فوراََ بعد نہرو کابھارت سائنسی علوم پڑھنے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔مولانا آزاد جیسی عہدساز شخصیت بھارت کو دس برسوں کے لئے بطور وزیرِ تعلیم دستیاب رہی۔اگلے پچاس برسوں پر محیط قومی تعلیمی پالیسی سیکولر بنیادوں پر استوارکی گئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی علوم پڑھانے کے لئے ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں کو فروغ دیا گیا۔جاگیرداری نظام کو ختم کردیا گیا۔ابتدائی برسوں میں جب ہندوستان میں خوراک کی قلت کا مسئلہ درپیش آیا تو اپوزیشن کی طرف سے مطالبے کے باوجود غلے کی تقسیم کا کنٹرول فوج کے حوالے کئے جانے کی بجائے، متعلقہ وزارت کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کو کہا گیا۔ نہرو جی کا جھکائواگرچہ اشتراکیت کی جانب تھا،تاہم سرد جنگ کے عروج میں بھی بھارت نے ’غیروابستہ تحریک‘ کا بانی رکن بننے کو ترجیح دی ۔ ساٹھ کے عشرے میں چین سے جنگ ہارنے کے باوجود صاف دکھائی دینے لگاتھا کہ بھارت بہت جلد ایک بڑی علاقائی قوت کے طور پر اُبھرے گا۔اُسی عشرے میں امریکی جھکائو بھی پاکستان کی بجائے بھارت کی طرف ہونے لگا تھا۔ نظر آنے لگا تھاکہ کچھ ہی برسوں بعد پاکستان کے لئے کشمیر کے مسئلے پر بھارت کی توجہ حاصل کرناممکن نہ رہے گا۔ وزیرِ خارجہ بھٹو کی یہی وہ بے چینی تھی جو1965 ء کی پاک بھارت جنگ کا بنیادی محرک بنی۔ اگلے دو عشروں میں سیاسی بے یقینی، اشتراکی رجحانات ، اور’لائسنس راج‘ سمیت متعدد علتوںکے باعث بھارتی معیشت جمود کا شکار رہی۔ نوے کی دہائی کے آغازمیں ڈاکٹر منموہن سنگھ جب بھارتی بجٹ پیش کرنے کے لئے لوک سبھا میں کھڑے ہوئے توبھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 1.2ارب ڈالرز تھے ۔ دنیا بھر میں آئی ایم ایف سمیت کوئی عالمی معاشی ادارہ بھارت کی مزید مدد کے لئے تیار نہیں تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب منموہن سنگھ جی نے ایک یادگار بجٹ تقریر کی۔ کچھ اصلاحات اور کچھ سخت فیصلوں کا اعلان کیا گیا۔ سونے کے بھارتی ذخائر عالمی بنکوں میں رہن رکھوا کرقرض حاصل کرنے کے بعدکئے گئے فیصلوں پر سختی سے عمل درآمد شروع کر دیاگیا۔ پرائیویٹ سیکٹرکو آزادکر دیا گیا۔ سائنسی علوم میںفارغ التحصیل کروڑوں بھارتی تارکینِ وطن بھی قومی اہداف کے لئے یکسو ہو گئے۔ان کی کاوشوں کی سرکاری سطح پر سر پرستی اور خدمات کا اعتراف کیا جاتا۔ اس دوران خطے میں چین کی ابھرتی ہوئی قوت کو دیکھ کر امریکہ بھی بھارت پر اپنی توجہ مرکوز کر چکا تھا۔ دوسری جانب سرحد کے اس طرف، ابتدائی عشروں میں ’نظریاتی شناخت‘ اور’سول ملٹری توازن‘ جیسی بے کارمباحث ، متعدد مارشل لائوں اور جناح کا پاکستان دو ٹکڑے کروانے کے بعدہم نوے کی بے ثمر دہائی میں گھوم رہے تھے۔سیاسی اور معاشی ابتری اپنے عروج پر تھی۔ دو خاندانوں کے بیچ اقتدار کا بے رحم کھیل جاری تھا۔ مذہبی ، فرقہ وارانہ اورلسانی تنظیمیں سرِ عام دندناتی پھرتی تھیں۔بھارت کی جانب سے کئی مخصوص تنظیموں کی اپنے ہاں سرگرمیوں کی شکایت توکی جاتی ،لیکن دو طرفہ تلخی ایک حد کے اندر رہتی۔ کارگل کی جنگ نے مگر دو طرفہ تعلقات کی نوعیت تبدیل کر دی۔ عالمی سطح پر ہمارا مقدمہ کمزورہوا جبکہ ملکی تشخص کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ۔بھارتی پارلیمنٹ پر حملوں کے نتیجے میں بھارتی جنتا کے اندر پیدا ہونے والے غم وغصہ کے باوجودتعلقات کو معمول پر لانے کی صدر مشرف کی کوششیں ثمرآورہوتیں، اگر ان کی حکومت قائم رہتی۔ کچھ ہی عرصے بعدممبئی حملوں نے مگر سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ بھارت میں پاکستان مخالف جذبات میں شدت عمومی نفرت میں بدل گئی ،جبکہ معتدل اور معقول طرزِ فکر کا حامل طبقہ پس منظر میں جاتا چلا گیا۔ انتہا پسند ہندوئوں نے بھارتیوں میں پائے جانے والے غم وغصہ کا خوب فائدہ اٹھایا۔سینکڑوںٹی وی چینلزرات دن آگ اگلنے لگے۔نتیجے میں گاندھی جی کا بھارت’ ہندوتوا ‘ کے پیروکاروں کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ گیا۔آج کروڑوں ٹویٹر اکائونٹس ہیں جو پاکستان کے خلاف نفرت پھیلاتے اور مودی جی کے گُن گاتے ہیں۔تکبر کے ساتھ اپنی ہی چھاتی ٹھونکنے والے مودی جی اِسی قومی نفرت، تکبر اور شر انگیزی کے گھوڑے پر سوارہیں۔ مودی جی کے سمجھنے کی بات مگر یہ ہے کہ بھارتی معیشت آج جس مقام پر کھڑی ہے، یہ معجزہ راتوں رات برپا نہیں ہوا۔اس کے پیچھے دو صدیوں پر محیط دور اندیشی اور بعد ازاں کروڑوں دیسی اور بدیسی بھارتیوں کی یکسوئی کارفرما ہے۔ مودی جی یہ کریڈٹ بہرحال لے سکتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طے کردہ اقتصادی پالیسیوں سے محض سیاسی بغض میں انحراف نہیں کیا ۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی معاشرے میں پائی جانے والی بے انتہا کرپشن کے باوجوداپنے پیشروئوں کی طرح انہوں نے بھی لندن ،دبئی اور دیگر ممالک میں کوئی خاندانی جائیدادیں نہیں بنائیں۔تاہم مودی جی کو اپنے بدقسمت ہمسائے کا تذکرہ حقارت کے ساتھ کرنے سے پہلے یاد رکھنا چاہیئے کہ بھارتی معاشرے میں پائی جانے والی انتہا پسندی اور پاکستان دشمنی سے پھوٹنے والی مقبولیت کے جس گھوڑے پروہ سوار ہیں، اسے جِلادینے میں اُن کا اپنا کمال جس قدر بھی ہو، ہماراہاتھ بھی کچھ کم نہیں۔ امید ہے کہ مودی جی اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں گے کہ آج امریکی اُن کی راہ میں جو گھی کے چراغ جلا رہے ہیں تو اس کا سبب مودی جی کی ’چھپن انچ کی چھاتی‘ نہیں بلکہ خطے میں امریکیوں کے معاشی اور تزویراتی مفادات ہیں۔ قوموں کے مفادات مگر وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ برصغیر سے بڑھ کر یہ بات کون جانتا ہے؟