عمران خان کی حکومت میں سب سے زیادہ مراعات اور بڑے عہدہ ڈیرہ غازی خان کے سردار عثمان بزداکے پاس تھا۔وہ ساڑھے تین سال تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ عثمان بزدار وفا داری اور ادب کا جیتا جاگتا مجسمہ تھے عمران خان جب لاہور آتے تو وزیر اعلیٰ کی بڑی کرسی پر بیٹھا احکامات جاری کرتے اور عثمان خان بزدار اپنا سب کچھ خان صاحب پر نچھاور کرتے نظر آتے جس دن پی ٹی آئی کے کسی بڑے عہد دار یا ہارون الرشید جیسے بزرگ صحافی عمران خان کے سامنے عثمان بزدار کی شکایت کرتے نظر آتے تو دوسرے روز کسی بڑے جلسہ یا پھر پریس کانفرنس میں عمران خان اُسی شکایت کا اُلٹا اثر لے کر عثمان بزدار کی اتنی زیادہ تعریفیں کرتے کہ شکایت کرنے والوں کو کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ ملتی اور یوں وہ دوبارہ عمران خان کے اِس لاڈلے وزیر اعلیٰ کی کبھی بھی شکایت کرنے کی جرات نہ کرتے چونکہ عمران خان ایک محدود سوچ کے نر گیست پسند انسان ہیں بشری بی بی نے جس طرح سے اُنہیں اپنے جال میں پھنسا ئے رکھا اُس کا اظہار عمران خان کے بہت نزدیک رہنے والے کئی دوست کر چکے ہیں کہ کس طرح سے بشری بی بی نے عمران خان کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا اور کس طرح سے عثمان بزدار کو معصوم بنا کر عمران خان کے سامنے اُن کی تعریفیں کی جاتی تھیں اور اب عمرا یوب خان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو سب سے زیادہ نقصان عثمان بزدار جیسے غداروں کی فہرست میں شامل ہے۔ میرے خیال میں عمران خان کو عثمان بزدار سے زیادہ نقصانکسی نے نہیں پہنچایا ہے اور اِس کی تمام تر ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہیجنہوں نے اپنے پرانے کارکنوں اور دوستوں کو ناراض کیا آج وفا کرنے والے جیلوں میں بند ہو کر ذلیل ہو رہے ہیں اور سردار عثمان بزدار جیسے لوگ بغیر جیل کا منہ دیکھے اور مقدمات کا سامناکیے بغیر اسٹبلیشمنٹ کے منظور نظر بن کر مزے کر رہے ہیں۔ عمران خان کے دور میں بھی مزے کیے اربوں روپے کی کرپشن کے کیس ابھی انٹی کرپشن اور نیب میں کھلے ہی تھے کہ عثمان خان بزدار نے فوری عمران خان کا ساتھ چھوڑ نے کا اعلان کر کے اپنے تمام کیسز سے جان چھڑا لی اور اب اُنہوں نے انٹی کرپشن کو اُلٹا نوٹس دیا ہوا ہے کہ انُہوں نے اُن کو نا جائز ملوث کرنے کی کوشش کی ہے یہ ہوتا ہے بڑے لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے کا فائدہ۔ اب چونکہ عمران خان کا اِس وقت کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آرہا جب کہ اُن کے ساتھ کٹھن مراحل میں ساتھ دینے والے اور اقتدار کے دنوں میں بھی کوئی بڑا اقتدار نہ ملنے کے باوجود بھی اُن کا ساتھ دینے والے شاہ محمود قریشی ، ڈاکٹر یاسمین راشد اورچوہدری پرویز الہٰی جیسے لوگ جیلوں میں بند ہیں اور اپنے اپنے نظریات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور چوہدری پرویز الہٰی کو بھی عمران خان سے ہمیشہ یہی گلہ رہا کہ اُنہوں نے عثمان بزدار جیسے نو وارد لوگوں کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دے کر اُن کے ساتھ زبردست زیادتی کی ہے لیکن وہ اُن لوگوں کی نہیں سنا کرتے تھے بلکہ عثمان بزدار کے بارے میں کی گئی شکایت کا اُلٹا ا ثر لیا کرتے اور دوسرے دن عثمان بزدار کو ایک بڑا مسیحا بنا کر پیش کیا کرتے تھے ان کی یہی سیاسی غلطیاں ہی انہیں لے ڈوبی جو سیاست دان بھی اقتدار کے دنوں میں اپنے مخلص اور جان نثار ساتھیوں کو نظر انداز کرتے ہیں ان کا یہی حال ہوتا ہے اور تاریخ اُسے کبھی معاف نہیں کرتی مغل بادشاہوں کے آخری دور اقتدار میں بھی یہی حال تھا کہ خواجہ سرا اور عورتیں اُن کی مشیر خاص ہوا کرتی تھیں جو اُن پر مکمل طور پر مسلط ہو ا کرتی تھیں وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کرا کے با دشاہوں کو بے بس کر دیا کرتی تھیں اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ وہی مغل بادشاہ نادر شاہ درانی اور غلام قادر روہیلہ جیسے لیٹرے اور بد معاش لوگوں کے سامنے کس طر ح سے ذلیل اور رسوا ہوئے تھے۔ شاہ رنگیلے کو عیش پرست عورتوں کے ساتھ دوستیاںڈوبیں اور نادر شاہ نے اُسے ذلیل و رسوا کرنے کے بعد دلی میں پورے تین دن قتل عام کیا تھا عورتوں کی عزتیں پامال کی گئیں تھیں اور آخر کار دلی سے سب کچھ لوٹ کر واپس روانہ ہو گیا ۔عمران خان اب جیل کی بند کوٹھری میں یہ ضرور سوچتے ہونگے کہ جن دوستوں نے میرے ساتھ وفا کی وہ تو اب جیلوں میں بند ہیں اور عثمان بزدار جیسے لوگ جن پر میں نے اتنا زیادہ اعتماد کیا اور جس کو اتنا بڑا اقتدار دیا وہ اب بھی مزے کر رہا ہے اور یہی تاریخ کا جبر ہے لیکن تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو محسن کشی نہیں کرتے۔وفا کرنے والے اپنی وفا سے مجبور ہوتے ہیں اور یہی تاریخ کے زندہ کردار بن جاتے ہیں۔ ویسے میں نے تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہی پڑھا ہے کہ ماضی میں بڑے بڑے بہادر با دشاہوں کی شکست کا سب ہمیشہ دو عناصر ہی بنے ہیںایک عورت اور دوسری خوشامد اِن دو چیزوں کے سامنے بڑے بڑے لوگوں کو بے بس دیکھا۔ ٹیپو سلطان کہ جن کو مفکر اسلام حضرت علامہ محمد اقبال آبروے ہند کے نام سے پکارتے ہیں واقعی فتح علی خان ٹیپو سلطان ہندوستان کی ایک ریاست میسور کا ایک بہادر اور بہترین خصوصیات کا مالک مسلمان با دشاہ تھا لیکن کیا ہوا میر صادق اور پورینا جیسے خوشامدی لوگوں کے نرغے میں آگیا وگرنہ سلطان فتح علی خان ٹیپو سلطان بہت زیادہ با کردار اور با حیا اور انتہائی متقی انسان تھا لیکن وہ زیادہ تر بھرسہ میر صادق اور پورینا پر کرتا تھا جنہوں نے سلطان فتح علی خان کے ساتھ غداری کر کے اُسکی شکست میںاپنا انتہائی بھیانک کردار ادا کیا جبکہ سید غفار جیسے وفا دار شخص نے آخر تک ٹیپو کا ساتھ دیا جس کے بارے میں میر صادق جیسا غدار ہمیشہ سلطان ٹیپو کو بھڑکایا کرتا تھا لیکن اُس وفاکے پیکر نے ٹیپو سلطان سے پہلے شہید ہو کر اپنا حق ادا کر دیا آج تاریخ میں ٹیپو سلطان اور سید غفار زندہ ہیں اور میر صادق جیسے لوگ نفرت کانشان بن چکے ہیں یہ بھی تاریخ کا جبر ہے کہ وفا کرنے والے ہمیشہ مجبور ہوتے ہیں : نرالہ محبت کا دستور دیکھا وفا کرنے والوں کو مجبور دیکھا