عید کی آمد آمد ہے اور حکومت نے پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے۔یہ اضافہ مہنگائی کی اس شدت کو کچھ اور بڑھا دے گا جو رمضان المبارک میں عام آدمی جھیل رہا ہے۔عید کی خریداری پر تھوڑا اور بوجھ سواریوں کے کرائے کا پڑے گا ۔بلاشبہ ہر چیز مہنگی کر دینے کا جواز دکاندار کو دیدیا گیا ہے۔نئی حکومت کے بقول اس نے پٹرول کی قیمت میں 9.66 روپے فی لیٹر اضافہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے پیش نظر کیا ہے ۔تاہم حکومت نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی سفارش پر ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3.32 روپے فی لیٹر کمی کی ہے۔پٹرول اب 289.41 روپے فی لیٹر پر دستیاب ہوگا جبکہ اس کی گزشتہ قیمت 279.75 روپے فی لیٹر تھی۔اضافے کا جواز پیش کرتے ہوئے، وزارت خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ پندرہ دن کے دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔حکومتی بیان میں مزید کہا گیا کہ یکم اپریل سے پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتوں پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔حکومت کو شائد سوجھ نہیں رہا کہ وہ عوام کو کس طرح تسلی دے لہذا اس کے ذمہ دار قیمتوں میں اضافے کو آئی ایم ایف کی شرط بتا رہے ہیں۔ اس وقت حکومت تقریباً تمام پٹرولیم مصنوعات پر 60 روپے فی لیٹر لیوی وصول کر رہی ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ حکومت سے کہہ رہا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات پر 18 روپے فی لیٹر جنرل سیلز ٹیکس عائد کرے۔فی الحال، ان مصنوعات پر کوئی جی ایس ٹی نہیں ہے۔اگر حکومت جی ایس ٹی نافذ کرتی ہے تو آنے والے مہینوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔پاکستان نے گزشتہ برس جون کے آخر میں آئی ایم ایف سے 3 بلین ڈالر کا قلیل المدتی مالیاتی پیکج حاصل کیا جس سے اسے ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملی لیکن یہ پیکج سخت شرائط اور مالی اصلاحات کی شرائط کے ساتھ آیا، جس میں 50 روپے فی لیٹر تک پٹرولیم لیوی بھی شامل تھی۔ اضافی محصولات میں اضافہ، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور مارکیٹ پر مبنی زر مبادلہ کی شرح پر بھی وعدے لئے گئے تھے جس نے پہلے ہی افراط زر کو ہوا دی ہے۔لوگوں کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔ملک کا کنزیومر پرائس انڈیکس بڑھ گیا۔ پاکستانی معیشت کو اس وقت چیلنجوں کے سیلاب کا سامنا ہے، جو بڑی کارپوریشنوں سے لے کر روزانہ اجرت کمانے والوں تک ہر ایک کو متاثر کر رہا ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے حالیہ اعداد و شمار سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے، جس سے ایک پریشان کن تصویر سامنے آتی ہے۔ صنعتی سرگرمیاں دب رہی ہیں، جیسا کہ تازہ ترین بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈیکس نے روشنی ڈالی ہے، جوگزشتہ برس جولائی سے نومبر کی مدت میں تقریباً 1 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ دریں اثنا، صارفین بڑھتی ہوئی مہنگائی سے دوچار ہیں، جو چالیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔تجارتی سرگرمیوں کی حالت خام تیل اور ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد اور کھپت کے رجحانات میں مزید جھلکتی ہے، معاشی اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ ایک معروف بروکریج فرم کی رپورٹ کے مطابق، 2023 کی آخری ششماہی میں، پاکستان کی پٹرولیم درآمدات میں اس سے پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً 24 فیصد کی واضح کمی دیکھی گئی۔ خاص طور پر، ہائی سپیڈ ڈیزل کی درآمدات، جو اکثر صنعتی سرگرمیوں کے لیے ایک گیج ہیں،اس میں 36 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جب کہ پٹرول کی درآمدات میں 5 فیصد کمی دیکھی گئی۔پٹرول بنیادی طور پر کاروں اور موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔پنجاب میں اس کا استعمال زیادہ ہے کیونکہ صوبے میں سی این جی سٹیشنوں میں دیسی گیس کی فراہمی نہیں ہے۔ انہیں مہنگی درآمدی گیس فراہم کی جاتی ہے۔ہائی سپیڈ ڈیزل بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹ اور زرعی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی قیمت میں کمی کسانوں اور دیگر لوگوں پر صحت مند اثر مرتب کرتی ہے، اس سے مہنگائی کے اثرات کم ہو سکتے ہیں۔یہ تب ممکن ہو گا اگر حکومت کے پاس تیل کی قیمتوں کے ضمن میں کوئی قابل عمل منصوبہ ہو،یہاں تو حالت ایسی ہے کہ اپنی سستی کا ملبہ حکومتیں عالمی اداروں پر ڈالتی ہیں اور عالمی ادارے بھی اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے اس صورتحال سے پورا فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔ مصیبت کے عالم میں، غیر فعال افسر شاہی ایک آپشن نہیں ہونا چاہیے؛ اس مشکل صورتحال سے بہترین ممکنہ نتائج نکالنے کے لیے فعال اور ذہین پالیسی سازی بہت ضروری ہے۔ درآمدات کو کم کرنے اور برآمدات کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے جبکہ سخت اقدامات جیسے کہ درآمدات پر سخت پابندیاں وغیرہ کئی بار الٹا اثر کرتی ہیں۔تیل کے حوالے سے ایک عملی نقطہ نظر مقامی ریفائنریز کے پوری صلاحیت کے ساتھ کام کرنے کو یقینی بنا کر بہتر پٹرولیم مصنوعات کی گھریلو پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات ڈالر کے ذخائر میں کمی کا باعث ہیں، اس کو حل کرنا معاشی منصوبہ سازوں کے لیے ایک اسٹریٹجک جیت ہو سکتا ہے۔سر دست حکومت تیل کی قیمتوں کے حوالے سے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی ہے۔یہ امید افزا نہیں۔حکومت کو مقامی مسائل کے تناظر میں فیصلے کرنا ہو ں گے۔ٹیکس نظام میں شفافیت لائی جائے تو عالمی ادارے پٹرولیم لیوی بڑھانے پر اصرار نہیں کریں گے۔