سواد تخت شاہی سے ڈاکٹرائن صادرہوا ہے کہ خواتین کے خلاف ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ ان کا نامناسب لباس ہے۔ سلیس زبان میں فحش اور نیم عریاں یا ناموزوں حد تک پرکشش لباس۔بات ایسی ہے ۔نہ ماننے کا چارہ ہی نہیں۔ساتھ ہی اس قول نے ریاست کو بھی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا۔ایک تیر دو شکار‘ایک گیند سے دو وکٹیں اڑانا،اسی کو کہتے ہیں۔ یاد آیا‘ اس سے قبل بھی قبلہ پرویز مشرف اسی قسم کی ڈاکٹرائن بیان کر چکے ہیں ۔ ایک مرتبہ یہ کلمہ حق ان کے دہن مبارک سے صادر ہوا کہ پاکستان کی خواتین خود ریپ کراتی ہیں تاکہ باہر سے فائدے ملیں۔ ٭٭٭٭ خواتین کو اپنا لباس فوراً درست کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایک سوال بیچ میں ذرا اور ڈھب کا آ پڑا ہے۔ وہ یہ کہ حالیہ عہد دو سالہ و شش ماہی کے دوران خواتین سے زیادہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوا ہے۔ اڑھائی برس کے اخبارات اٹھا کر ماہ بہ ماہ نہیں‘ روز بہ روز کے حساب کے دیکھ لیجیے‘ دل کو پارہ کرنے والے حقائق سامنے آئیں گے۔ خبر بہت مختصر‘ چند سطری‘ غیر نمایاں انداز میں‘ کسی کونے کھدرے میں نظر آئے گی لیکن آئے گی ضرور اور وہ اس قسم کی ہو گی کہ اتنے سال کے بچے یا بچی کی نعش برآمد‘نامعلوم درندہ صفت زیادتی کے بعد قتل کر کے فرار ‘لاش فلاں گٹر یا کوڑے کے ڈھیر سے برآمد…ہر روز ملنے والی ایسی خبروں کے بعد، اب کیا کیا جائے ؟( درحقیقت اگرجاتی عمرہ برادران ماضی میں قصور کی زینب کے قاتل کو سر عام سزا دینے کا قانون بنا دیتے تو یہ خرافات رک جاتیں ) ٭٭٭٭ بہت سے بچے تو ارواح شیطانی و کلبوت ہائے انسانی کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں لیکن ایک تعداد ایسی بھی ہے غربت جن کی جان لے لیتی ہے۔ ایسی ہی ایک دلدوز خبر بہاولپور سے آئی۔ حالیہ دور میں ایک صاحب کا کاروبار بیٹھ گیا تھا۔گھر میں غربت ناچنے لگی۔ ایک دن بچوں نے روٹی کے ساتھ دہی کا مطالبہ کیا(سالن بننا نہ جانے کب سے بند ہو چکا تھا) باپ کے صبر کی کمر پر یہ آخری تنکا ثابت ہوا۔ اس نے دونوں بچوں کا گلا گھونٹ دیا‘ پھر بیوی کو مارا اور اس کے بعد اپنی جان لے لی۔ ایک ہی دن پہلے اس کو17ہزار پانچ سو کا بل آیا تھا۔ مکان کا کرایہ الگ سے واجب الادا تھا۔(دہی مانگنے کا مطالبہ واردات سے کچھ پہلے ایک پڑوسی نے سنا) ٭٭٭٭ فرشتوں جیسے معصوم بچے کہاں کہاں قتل نہیں ہوتے۔ گھروں میں ملازم بچے چند سو کی ماہانہ تنخواہ کم اور موت زیادہ پاتے ہیں۔سوتیلی ماں اور سوتیلا باپ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ تفصیل بہت ہے‘ بیان کا یارا نہیں۔ اس ڈیجیٹل دور میں سینکڑوں نہیں‘ ہزاروں نہیں‘ دسیوں ہزار ایسے واقعات ہیں جو سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ڈاکو مینٹڈ ہو گئے۔ نیٹ پر یہ سب موجود ہیں‘ ایک سے ایک دلوں کو جیرا دینے والااڑھائی تین سال کے بچے کو پتہ ہی نہیں تھا‘ اس کے سگے باپ نے اسے کیوں مار ڈالا۔یہ واقعہ امریکہ کا ہے۔دس پندرہ منٹ تک سگا باپ اپنی بیوی سے برہمی کی وجہ سے بچے کو ٹھڈے مار رہا تھا جو ابھی چلنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ وہ باپ کے ٹھڈوں سے بچنے کے لئے بے بسی کے عالم میں رینگتا لیکن بے رحم ٹھڈوں نے پیچھا نہ چھوڑا۔ ننھی سی جان آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں زخمی بدن کو چھوڑ گئی۔ ٭٭٭٭ غالباً دردناک ترین واقعات میں ایک وہ ہے جس میں دو سال کے بچے کی جان کنی کامل پانچ برس تک جاری رہی۔اس ننھی سی جان نے کل سات سال عمر پائی۔ دو سال تک وہ ماں کی آغوش شفقت میں رہا‘ پھر ماں نے طلاق لے لی‘ ظالم باپ نے دو سالہ بچہ اپنی ماں سے چھین لیا اور نئی شادی کرکے یہ بچہ سوتیلی ماں کے سپرد کر دیا۔ دوسالہ آڈریان جونز کو نئی ماں نے گندے کمرے میں جہاں سوّر رہتے تھے‘ بند کر دیا‘ کبھی کھانا دیتی ‘ کبھی نہ دیتی۔ اسے اس ڈربے سے باہر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہر روز وہ اندر آتی اسے مارتی۔ یہ واقعہ کنساس سٹی امریکہ میں پیش آیا۔ سوتیلا باپ سیاہ فام تھا‘ ماں سفید فام‘ آڈریان کے بازو رسیوں سے باندھ دیے گئے جو باقی تمام عمر بندھے ہی رہے۔ اس کی نعش برآمد ہوئی تو بازو سوجے ہوئے تھے۔ ایک بار اس نے کھانا مانگا تو ماں نے صابن کے ٹکڑے اس کے منہ میں ٹھونس دیے۔آخر اس کا سات سالہ عرصہ حیات ختم ہوا۔ ماں باپ اس پر تشدد کرتے اور روز اس کی ویڈیو بناتے۔پولیس کو پتہ چلا تو نعش کے ساتھ ویڈیو بھی برآمد ہوئیں۔ماہ بہ ماہ یہ بچہ کمزور سے کمزور ہوتا گیا۔آخرمیں وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور آنکھیں بے نور۔ دونوں ماں باپ کو عمر قید کی سزا دے کر انصاف کر دیا گیا۔ باپ کا نام مائیکل جونز‘ ماں کا ہیتھر ہے‘ خبر کنساس سٹی سٹار سے لی گئی) ٭٭٭٭ امریکہ بچوں کے قتل کے حوالے سے سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ یہاں 80فیصد سے زیادہ ایسے جرائم سیاہ فام اور آئی میرین(ہسپانوی‘پرتگالی) افراد کرتے ہیں۔ جنوبی اور لاطینی امریکہ میں بھی آئی ممیرنز کی اکثریت ہے۔ بچوں کے قتل میں پہلے نمبر پر برازیل ہے۔پھر باقی لاطینی امریکہ اس کے بعد صحرائے اعظم کے نیچے کے تمام افریقی ممالک‘ پاکستان‘ افغانستان‘ برما‘ شام اور عراق کا نمبر آتا ہے۔ صحرائے اعظم سے اوپر کا افریقہ‘بیشتر عرب ممالک‘ ترکی‘ تمام یورپ‘ وسطی ایشیا‘ چین ‘ جاپان‘ بنگلہ دیش وغیرہ میں یہ جرم سب سے کم ہوتا ہے۔ یہ جبلت کا نہیں نظام‘ روایات اور تہذیب کا فرق لگتا ہے اور شاید یہ بھی کہ بعض اقوام کا خمیر شیطنت سے زیادہ مملوہے۔ (باقی کل)