کہتے ہیں فن کار کسی بھی ملک کا سفیر اور پیام بَر ہوتا ہے۔ فن کار خواہ شاعر ہو، ادیب ہو، لکھاری ہو، چِتر کار ہو، گلو کار ہو، موسیقار ہو یا گیت کار ہو وہ بادِ نسیم کی طرح فضاؤں میں اپنے فن سے معطر خوشبوئیں بکھیرتا ہے۔ فن کار ایک سماج میں بستا ہے۔ وہاں کی مٹی میں نہ صرف امن کے بیج بَوتا ہے بلکہ اس کو پانی بھی دیتا ہے تاکہ بہار کے موسم میں محبت کے بْوٹوں پر پیار کی کلیاں کھلیں۔ مگر پتہ نہیں وطنِ عزیز میں کیسا جورو ستم کا موسم چل رہا ہے کہ سْرخ گلابوں کے موسم میں بھی کلیاں مْرجھائی جاتی ہیں۔ موسیقی اور شاعری فن کی وہ جہتیں ہیں جن کی بنیادوں پر لوگ محبت کے قلعے تعمیر کرتے ہیں۔ ربّ کی بنائی ہوئی اس متنوع دنیا میں رنگ رنگ کے لوگ ہیں۔ کوئی غصیلا، کوئی رحم دل، کوئی پیار کرنے والا، کوئی شکی مزاج، کوئی نفس کے تلے دبا ہوا، کوئی پیسے اور شہرت کے نشے میں چْور۔ یہ ساری باتیں اس لیے ذہن میں آئیں کہ آج کل ویڈیوز وائرل ہونے کا جیسے مقابلہ سا چل پڑا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اتر رہے ہیں۔ کسی وقت میں میڈیا کومظلوم عوام کی مضبوط آواز سمجھا جاتا تھا۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں حقیقتاً میڈیا پر جو مسائل زیر بحث لائے جاتے تھے ان کا حل بھی کہیں ضرور نکل آتا تھا۔ مگر پھر میڈیا پر جنات کا سایہ پڑ گیا۔ لیکن قدرت کا قانون کبھی رْکتا نہیں۔ سوشل میڈیا آیا اور اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو واضح ہیں۔ پچھلے چند دنوں سے چند ایک ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ پہلے ایک ویڈیو کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک درمیانے قد کا آدمی ہے۔ سر سے گنجا ہے۔ ٹائٹ اور ایک لمبا کوٹ زیبِ تن کیے ہوئے کھڑا ہے۔ اس کے آسے پاسے دو نوکر نما آدمی کھڑے ہیں۔ درمیان میں کھڑا ڈان نما آدمی وہ ہے جو پہلے اپنی ویڈیوز میں بیہمانہ طریقے سے اپنے نوکر کو جوتیوں سے پیٹتا ہے جس میں وہ اپنی ایک شربت کی بوتل کے غالبًا چوری ہو جانے پر اس نوکر کو بے زبان لاغر گدھے کی طرح جوتے مار مار کر بے حال کر دیتا ہے۔ ’’کدھر ہے میری بوتل؟‘‘ مسلسل جوتوں کی بارش برساتے ہوئے اْسے پوچھے جا رہا ہے۔ وہ غریب کا بچہ کہے جا رہا ہے کہ اْسے نہیں معلوم مگر موصوف متواتر پیٹے جا رہے ہیں۔ بس کسر رہ گئی تھی تو صرف اتنی کہ ان کے نوکیلے دانت نہیں نکلے۔ جناب تو ٹھہرے اس ملک کے مشہور و معروف دولت مند گائیک۔ قوالیوں اور غزلوں کی گائیکی میں ان کا ایک نام ہے۔ مختلف قسم کے ایوارڈ ان کے گھر کی الماریوں کی زینت ہیں۔ شادی بیاہ کے مواقع پر متمول گھرانے انہیں محفل میں رنگ جمانے کے لئے بلاتے ہیں۔ وہاں پر بھی وہ وہی شربت کی بوتلیں پی پی کر محفل موسیقی کو سجاتے ہیں۔ بلکہ حاضرینِ محفل جن میں بڑی تعداد نوجوان لڑکوں کی ہوتی ہے وہ بھی وہی شربت پی کر جھوم رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہ نامی گرامی گائیک صرف ایک محفل میں رنگ جمانے کے لیے اتنی کثیر رقم لیتے ہیں کہ اس سے کئی غریب گھروں کی لڑکیوں کی شادیاں ہو جائیں۔ تو بھیا جی! آپ کے نزدیک بوتل کا اِدھر اْدھر ہو جانا کوئی اتنی بڑی بات تو نہ تھی۔ بہت ہی غصہ تھا تو چند صلواتیں سنا کر غصّے پر پانی ڈال دیتے مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ہر عروج کا ایک زوال ضرور ہوتا ہے۔ در اصل شہرت اور دولت اس منہ زور گھوڑے کی طرح ہے جس پر سوار انسان اگر عاجزی اور انکساری کی لگام نہ پکڑے تو اْلٹے منہ گر پڑتا ہے۔ بالکل ایسے ہی ہمارے وہ معروف گائیک اوندھے منہ گِر پڑے ہیں۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی اس ویڈیو کی جس میں وہ اپنے ظلم اور بد تمیزی کی تردید کچھ ان لفظوں میں کر رہے تھے کہ ’’یہ میرا شاگرد ہے اور یہ اس کا باپ ہے۔ اور یہ ہمارا یعنی استاد اور شاگرد کا آپسی معاملہ ہے۔‘‘ غور سے دیکھیں تو ان کے تکبر سے تنے ہوئے چہرے پر کہیں بھی مَلال دکھائی ہی نہیں دیتا بلکہ لگتا ہے کہ اس ویڈیو کو ریکارڈ کروانے کے بعد وہ فوری طور پر پھر سے جْوتا اْٹھا لیں گے۔ کیا اس گائیک کو پتہ نہیں کہ جس مقام کو بنانے میں اسے برسوں لگے وہ اب جتنا مرضی شرمندہ ہونے کی اداکاری کرلے یہ داغ دْھلنے کے نہیں۔ سب داغ اچھے نہیں ہوتے۔ پہلے بھی ان کی ذات سے متنازع چیزیں جڑی ہوئی تھیں۔ بزرگوں کی کہاوت ہے کہ’’اگر ہاتھوں میں معجزہ ہو تو سانپوں کا زہر بھی تریاق بن سکتا ہے اور اگر کسی متکبر بیوقوف کے ہاتھ شہد میں بھی پڑ جائیں تو وہ نقصان رساں ہو سکتا ہے۔‘‘ بندہ پوچھے کہ آپ کے اْستاد جن کے نام کا آج بھی دنیا میں ڈنکا بجتا ہے انہوں نے کبھی جْوتیوں سے آپ کی تواضع نہیں کی۔ ہمارے نامور گائیک کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی شروعات استاد کی قوالیوں کے پیچھے آواز لگانے سے ہوئی تھی جنہیں قوال پارٹی کے لوگ آوازیے کہتے ہیں۔ ’’قوالی‘‘ ’’قول‘‘ سے نکلا ہے۔ صوفی پیر چشتیہ سلسلے کے امیر خْسرو نے تیرھویں صدی میں فارسی، ترکی اور عربی کلام کو ملا کر قوالی کی بنیاد رکھی۔ قوالی کا تو کلام ہی محبت ہے۔ جناب گائیک آپ نے کیا کیا؟ دم والے پانی کا سوال ہے کہ ’’کیا تْو مجھے نہیں چھوڑ سکتا؟ ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ گیت جو تمہاری زندگی میں شہرت ودولت لے کر آئے اور وہ لوگ جنھوں نے تمہیں پذیرائی دی وہ یہ بْھول جائیں گے کہ آپ نے ایک انسان کی کتنی توہین کی؟ دم والا پانی کہتا ہے: ’’آؤ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھو تاکہ ہم ایک دوسرے کو الوداع کہہ سکیں۔‘‘ بوتل کا جن اب باہر نکل چکا ہے۔