میلہ رام کے بیٹے رائے بہادر سرن داس تقسیم سے قبل متحدہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کا خاندان بحفاظت مشرقی پنجاب اور وہاں سے دہلی منتقل ہو گیا۔ اب یہ خاندان پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔سرن داس کی پڑپوتی نیلما لامبہ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر ایس کے لامبا کی اہلیہ تھیں۔ سرن داس کی پڑپوتی کے بیٹے بیرن لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مجھے نیلما لامبہ کی رائے بہادر سرن داس پر لکھی کتاب کا بتایا ہے۔چند ہفتوں میں دوبئی کے راستے یہ کتاب لاہور پہنچ جائے گی۔آزادی کا اعلان ہوا تو لال کوٹھی کے مکین موجود نہیں تھے۔ لوگوں نے برآمدوں اور صحن میں جو نادر اور قیمتی چیز نظر آئی لوٹ لی۔حکومت پاکستان نے سول ڈیفنس اور محکمہ شکار کو یہاں دفتر بنا دیے۔ شکار کی عدالتیں تو کمروں تک محدود تھیں‘ سول ڈیفنس والوں نے سارے سرسبز لان‘ تالاب ‘ برآمدوں اور راہداریوں تک پر قبضہ کر لیا۔ اردگرد کے لوگوں نے بھی حویلی کے کچھ حصوں پر مکان بنا لئے۔ پیر سید مختار شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ ان کے دادا ابوالبرکات سید احمد قادری کے گورنر امیر محمد خان سے اچھے مراسم تھے۔ان اچھے مراسم کی وجہ سے انہوں نے بعدازاں امیر محمد خان کے کہنے پر صدارتی انتخابات میں ایوب خان کی حمایت کی۔اسی لال کوٹھی میں ایوب خان کی حمایت کے لئے کئی اجلاس ہوئے ۔ابوالبرکات مسجد وزیر خان میں حزب الاحناف کا ادارہ چلا رہے تھے۔انہوں نے امیر محمد خان کو درخواست کی کہ لال کوٹھی ان کے ادارے کو الاٹ کر دی جائے۔ان دنوں حکومت نے اس کی نیلامی کا اعلان کر رکھا تھا۔1961ء میں نیلامی ہوئی تو ابوالبرکات نے 2ایکڑ پر مشتمل لال کوٹھی ساڑھے چار لاکھ میں خرید لی۔ اس میں کچھ امیر محمد خان کے اثرورسوخ کا عمل دخل بھی تھا ورنہ قزلباش خاندان اسے خرید کر کربلا گامے شاہ کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔پیر مختار شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے پرانی کوٹھی کی واحد تصویر کھینچی۔وہ بچے تھے لیکن اتنی سمجھ رکھتے تھے کہ چیزوں کو شناخت کر سکیں۔ان کے بقول لال کوٹھی کی چھتیں دیار کی لکڑی سے بنائی گئی تھیں۔چھت کی بالائی سطح پر ٹائلیں تھیں۔ بیت الخلا مرکزی عمارت سے ہٹ کر بلند چھت والا تھا۔ اس کے اندر شیشے کا کیبن تھا۔لال کوٹھی کے احاطے میں کاٹن مل کے مزدوروں کو لانے لے جانے والی ایک لاری کھڑی تھی جس کا ہارن بجا کر پیر مختار شاہ اور ان کے دوسرے بہن بھائی تفریح طبع کا سامان کرتے۔یہ لاری مختار شاہ رضوی صاحب کے خاندان نے 500روپے میں فروخت کر دی۔ پیر مختار شاہ رضوی کے خاندان کو لال کوٹھی کا قبضہ لینے کے لئے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ سول ڈیفنس والے حیلہ بازی کر رہے تھے ۔احاطے میں 300مہاجر خاندان آ کر بیٹھ گئے تھے۔ کچھ اردگرد کے لوگوں نے تعمیرات کر لیں۔لوگوں نے درخت کاٹ لئے۔پھر بھی یہاں برگد کا ایک بڑا درخت‘ شہتوت‘ آم اور دوسرے کافی درخت موجود تھے۔لال کوٹھی کا قبضہ ملنے کے بعد پیر مختار شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کو یہاں ایک بند کمرے سے لوہے کی دو بڑی سیف ملیں۔ان کو کسی نے نہیں کھولا تھا۔بہت وزنی تھیں اس لئے چین کپی کے ذریعے باہر نکالی گئیں‘ کئی روز تک ہتھوڑوں سے خود پیر مختار شاہ نے ان کے دروازے توڑے۔اندر سے پٹاریاں نکلیں۔جن میں سانپ یا زیور نہیں تھا۔بہت سی رجسٹریاں اور اسٹامپ پیپر نکلے جو لاہور میں میلہ رام کی جائیدادوں سے متعلق تھے۔کسی نومولود بچے کے بالوں کی جھنڈ رکھی ہوئی تھیں۔دلہن کا سرخ رنگ کا غرارہ سیٹ تھا جس پر چاندی کا کام ہوا تھا۔چیک بکس نکلیں۔ سرن دان اس قدر امیر تھے کہ اس زمانے میں ان کے چیک 50ہزار اور ایک لاکھ سے کم نہ تھے۔ایک فریم میں لگی تصویر تھی جس کے نیچے ببا سنگھ لکھا تھا۔ایک کتاب ان الماریوں سے ملی جس پر ’’ویسٹ منسٹر ہال‘‘ لکھا تھا۔کاما سوتر کی ایک رنگین کتاب تھی۔تمام تصویریں ہاتھ سے بنائی گئی تھیں۔اخبارات اور رسالوں کا ڈھیر نکلا۔دو ڈائریاں ملیں۔ایک میں لکھا تھا کہ ’’رشتے کے لئے کشمیر کے مہاراجہ کے ہاں گئے‘‘۔ پیر مختار شاہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ناسمجھی میں وہ اور ان کے خاندان نے بہت سی چیزیں ضائع کر دیں۔ والدہ نے غرارہ کسی کو دیدیا‘ اخبارات، اسٹامپ پیپر اور کاغذات ردی میں اٹھوا دئیے۔ بھائی نے 1989ء میں کاما سوتر کی کتاب 45ہزار میں کسی کو فروخت کی۔دہلی دربار سے ملنے والے کا نسی کے میڈل اور فوارے فروخت ہوئے۔ کچھ دوستوں اور ملنے والوں کو تحفہ میں دیدیے۔ ایک فوارہ لاہور میوزیم کو دیا گیا جو بعد میں وہاں سے غائب ہو گیا۔لال کوٹھی کے ساتھ جو کاٹن مل تھی وہ ایمبیسڈر ہوٹل والے محمد امین نے خرید لی۔ دربار سید معصوم کے ساتھ کچھ جگہ ماضی کے معروف اداکار بھا اسماعیل نے خرید لی۔ داتا دربار کے سامنے میلہ رام کا سینما تھا۔پائلٹ ہوٹل والی جگہ پر اس کا کوئلے کا گودام تھا۔یہاں میاں محرم علی نے پہلے پائلٹ سوڈا کا کارخانہ لگایا۔ لال کوٹھی کے سامنے کی جگہ 1971ء میں ایکوائر ہوئی تو رضوی خاندان کو اس کے 60ہزار روپے ملے۔ دس سال پہلے فلائی اوور بنا تو میٹرو بس کے لئے مزید 6مرلے حکومت نے لے لئے۔جس کے 80لاکھ دیے گئے۔مختار شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ سرن داس نے بیٹی کی شادی لارنس گارڈن کے لیڈی گارڈن میں کی۔ اس شادی کے کھانوں کا مینیو چھپا ہوا ملا۔جس میں ٹوٹی فروٹی‘ رشین سلاد اور سوپ شامل تھا۔ہرن کے ناف میں بند کستوری ملی جو 1985ء میں سمن آباد کے مولانا محمد شریف بدر نے 1800 میں خریدی۔ایک لکڑی کا چھوٹا باکس نکلا۔ گلہڑ‘ چیل ٹاہلی اور بوڑھ کے درخت کٹ چکے اب حزب الاحناف کے طالبعلم یہاں سارا دن درس لیتے ہیں۔شاید وہ جانتے تک نہیں کہ اس جگہ لاہور شہر کی زندگی کبھی سانس لیتی تھی ۔