ساغر صدیقی ایک فقیر منش شاعر تھے جس نے ساری زندگی لاہور کی سڑکوں پر آوارگی کرتے ہوئے گزار دی ۔ جس فقیری کے عالم میں اُس نے اِس فانی دنیاسے کوچ کیا وہ ایک داستان ہے۔ ساغر صدیقی ایک زمانہ میں بڑا ہشاش بشاش اور صحت مند انسان تھا ۔ وہ جب بھی کسی مشاعرے میں جاتا تو اپنے خوب صورت کلام اور خوب صورت ترنم کے ساتھ مشاعرہ لوٹ لیا کرتا ۔ ایک مرتبہ ساغر صدیقی نے جگر مراد آبادی اور عدم جیسے شعر اء کی موجودگی میں جب اپنی یہ نظم ترنم کے ساتھ سنائی تو پھرساغر کے علاوہ کوئی نہ رہا: یہ جو دیوانے سے دو دچار نظر آتے ہیں اِن میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں صدر ایوب خان کے زمانے میں ساغر نے ایک لازوال نظم لکھی تھی جس کا ایک مصرع اس کالم کاعنوان ہے ۔صدر ایوب خان 1958ء سے 1969ء تک بر سر اقتدار رہے۔ اِس دوران ملکی سطح پر کئی نشیب وفراز رونما ہوئے ۔اِس دور میں ساغر صدیقی کو لاہور میں رات کو سوتے ہوئے اِس کے ایک گرم کوٹ سے ایک چور نے محروم کر دیا جس پر ساغر نے حکمران پر چوٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ : جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اُس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے یہ شعر بھی زبان زد عام ہو کر ایوب خان تک جا پہنچا اور اُنہوں نے اِس شعر پر بڑی ناراضگی کا اظہار کیا بادشاہوں کو تو ہر وقت خوشامدی گھیرے رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ عوام سے کٹ جاتے ہیں اِن کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ایک غریب کی زندگی کیسے بسر ہوتی ہے لیکن آج کے دور میں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کی وجہ سے ہر خبر حکمرانوں تک پہنچ رہی ہے۔ گزشتہ پندرہ دنوں سے پورے ملک میں بجلی کے بلوں میں بے پناہ اضافہ اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہیں چونکہ بجلی کے بلوں میں اضافہ اور تیل میں اضافہ کی ابتدا میاں شہباز شریف کی حکومت کے دوران ہوا تھا افسوس کہ 17 ماہ تک عوام پر مہنگائی اور صرف مہنگائی کا ایٹم بم چلانے والے میاں شہباز شریف سے جب گذشتہ روز لندن میں پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اب میں لندن میں ہوں اس لیے پاکستان کے حالات سے اُن کا ابھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ بُھونڈا سا جواب دے کر وہ فوراً رفو چکر ہو گئے ۔ کوئی بھی سیاست دان عوام کا ہمدردنہ نکلا سب نے جی بھر کر ملک کو لوٹا اور فرار ہو گئے۔ میاں شہباز شریف نے اقتدار پر قدم رکھنے کے بعد فرمایا تھا کہ وہ اِس ملک کے عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے اپنے کپڑے تک فروخت کر دیں گے اور اب وہ خود تو ملک چھوڑ چکے ہیں اور عوام اب بجلی کے بھاری بل ادا کرنے کے لیے اپنا سب کچھ بیچ رہے ہیں ۔ہمارے ملک کی بد قسمتی ہی کہہ لیں کہ ہمارے ملک کو قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان کے بعد کوئی مخلص لیڈر نہیں ملا جو بھی آیا اُس نے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بیورو کریسی کا تحفظ کیا سیاست دان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام دشمن پالیساں بنا کر عوام کو لوٹتے ہیں آخر بجلی کے فری یونٹ کی پالیسی بھی تو ہمارے اِن سیاست دانوں نے اقتدار میں آکر بنائی تھی ۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ سات سو روپے کمانے والا مزدور تو ایک سو یونٹ بجلی کا بل دس ہزار روپے ادا کرے اور دس لاکھ روپے تنخواہ لینے والا اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کو دو ہزار یونٹ بجلی مفت دی جائے بڑی کوٹھی بڑی گاڑی اور اُس کا تیل بھی مفت دیا جائے اور یہ تمام مراعات عوام کے خون پسینے سے حاصل کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف واپڈا کے اعلیٰ افسران سے لے کر چھوٹے ملازمین تک سب کی بجلی فری یہ افسران اور اہلکار سالانہ تین کروڑ سے زائد یونٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ بجلی چوری کرانا علیٰحدہ معاملہ ہے ۔ عوام بے انتہا مہنگائی کی وجہ سے چیخ رہے ہیں، فاقے کاٹ رہے ہیںلیکن کوئی بھی بڑے عہدے پر تعینات شخص قربانی دینے کو تیار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اِس ملک کو دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہوا ہے۔ چار بہترین موسم ، سونا اگلتی زمینیں ، بہترین نہری نظام ، دریا ،سمندر ، پہاڑ قدرت کی طرف سے ہمیں عنایت کیے گئے ہیں لیکن قیادت کرپٹ اور نا اہل جس نے قوم کو بے وقوف بنایا ہوا ہے۔ افغانستان جو دنیا میں غریب ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آتا ہے وہاں پر بجلی کا یونٹ 11 روپے ہے بنگلہ دیش جو ہمارا حصہ تھا اور جس کو ہم پٹ سن اوڑھنے والی قوم کا طعنہ دیا کرتے تھے آج اُن کے پاس 52 ارب ڈالر کا زر مبادلہ موجود ہے اور ہمارے پاس صرف 24 ارب ڈالر موجود ہیں۔ ہماری نا اہل اور کرپٹ قیادت اور اشرافیہ کی وجہ سے 50 روپے یونٹ بجلی عوام کو فروخت کی جا رہی ہے کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ اشرافیہ اِن حالات میں بھی اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اِس ملک کو اگر بچانا ہے تو خدارا سب سے پہلے بر سرا قتدار اور اشرافیہ کو اب قربانی دینا ہو گی۔ عوام نے تو ہر دور میں قربانی دیتے رہے ہیں اور اب تک دے رہے ہیں۔ لیکن اب اِن لوگوں کی باری ہے کہ جنہوں نے ساری زندگی عوام کا خون نچوڑا ہے اور اپنی تجوریاں بھری ہیں اب کوئی مقدس گائے نہیں، تمام ادارے آئین کے وفا دار اور اُس پر عمل کرنے کے پابند ہیں جن بر سر اقتدار لوگوں نے ماضی یا حال میں ملک کو لوٹا ہے اور غلط فیصلے کیے ہیں اُن کا بالا تفریق سخت احتساب کیا جائے اور اگر ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل اور غلام سے چھڑانا ہے تو سب کو سادگی اختیار کرنا ہو گی اور ملکی بقا کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر کالا باغ ڈیم پرہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا جائے ۔پوری قوم کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنا حصہ شامل کرنے کے لیے تیار ہے اب صرف دیانت دار لیڈر کی ضرورت ہے چونکہ قوم موجودہ لیڈروں سے مکمل بیزار ہو چکی ہے ۔