بات ہے جب کہ بن کہے دل کی اسے سنا کہ یوں خود ہی دھڑک دھڑک کے دل دینے لگے صدا کہ یوں میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں ایک اور مشورہ بھی ہے۔ سوچا تھا سنگ دل کو ہم موم کریں تو کس طرح آنکھ نے دفعتاً وہاں اشک گرا دیا کہ یوں! صاحبو آپ کو یہ سخن وری سمجھ میں آ جائے گی کہ ہم اسی پر بات کرنے جا رہے ہیں ایک دفعہ پھر 92 نیوز کی شہ سرخی نے مجبور کر دیا کہ ہم ان کے حسن مزاح کو داد دیں۔ سرخی دیکھ کر آپ کے کانوں کی لویں بھی سرخ ہو جائیں گی بجلی کے بلوں پر 48گھنٹے میں ریلیف ۔ پٹرول 15روپے فی لٹر اور ڈیزل 18روپے لٹر مہنگا میں اسے عشاری نظام میں نہیں لکھتا رائونڈ ابوٹ ہی ہے۔ ویسے واقعتاً وزیر اعظم صرف وعدے پر یقین نہیں کرتے کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ وہ عملی انداز میں معاملات کو ڈیل کر رہے ہیں ان کے منہ سے نکلی ہوئی بات اٹل تھی اور 48گھنٹوں میں عوام کو ریلیف مل گیا اور کس اعتماد کے ساتھ وہ وضاحت بھی فرما رہے ہیں کہ کوئی بحران نہیں ہے بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے۔ ویسے کمال ہے کہ عوام سولی پر چڑھے ہوئے ہیں ہائے ہائے پرانے شعر بھی کیا ہوتے ہیں یاد آ جاتے ہیں: اس نے ہر بات کو لوگوں سے چھپا رکھا ہے اک تماشہ سر بازار لگا رکھا ہے وہ جو کہتا ہے کہ انصاف ملے گا سب کو اس نے منصف کو بھی سولی پہ چڑھا رکھا ہے یہ تو نقطہ معترضہ تھا کہ مقطع میں آ پڑی تھی سخن گسترانہ بات ہم پھر آتے ہیں ریلیف کی طرف کہ یہ لفظ مسلسل پریکٹس میں آ کر اپنے معنی یکسر بدل چکا ہے آپ کس دورکو ہی دیکھ لیں حکمران ریلیف ایسے ہی دیتے آئے ہیں اور یہ ریلیف بھی اس وقت دیتے ہیں جب وہ کسی معاملے کا نوٹس لیتے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی رات کو قیمتیں کم کی تھیں اور صبح اخباروں میں پڑھی ہوئی تھیں۔ گویا ریلیف کا لفظ معکوس معنوں میں جا چکا ہے آکسفورڈ ڈکشنری والوں کو بھی اس لفظ پر غور کرنا چاہیے۔ یہ وہی ریلیف ہے کہ جس کے بارے میں منیر نیازی نے کہا تھا میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں ۔ تو جناب حکمرانوں کا پیار ایسا ہی ہوتا ہے ہمارے وزیر اعظم تو ویسے ہی فل ان دی بلینک ہیں انہیں تو کچھ بھی نہیں کہنا چاہیے کہ وہ تو مہنگائی کا پہاڑ گرا کر ایسے خوش ہیں کہ جیسے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ کہتے ہیں بل تو دینا پڑیں گے گو مرنا تو پڑے گا لوگ وزیر اعظم سے توقعات ہی باندھتے رہ گئے ہم بھی ان کی شعر فہمی کی تعریف کرتے رہے مگر وہ تو شیر کے سوار نکلے ایسے ہی عرصہ بعد غالب کا شعر یاد آ گیا: میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں آپ خاطر جمع رکھیں ابھی وزیر اعصم صاحب بڑے پرعزم ہیں کہ ان سے جو امید بڑوں نے لگائی تھی وہ ناامید نہیں ہیں۔ خاطر خواہ نتائج انہیں ملیں گے چلیے غالب پر مندرجہ بالا شعر والی غزل کا ایک اور شعر: مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں وہی جو کہتے ہیں کہ چٹکی راکھ اگرچہ کچھ نہیں ہوتی مگر یہی چٹکی پھر خاک یا راکھ آپ اگر ہوا میں پھینکیں تو ہوا کا رخ معلوم ہو جاتا ہے میرا خیال ہے کہ موجودہ فیصلوں سے آپ کو ہوا کا رخ تو معلوم ہو گیا ہو دوسرے لفظوں میں آٹے دال کا بھائو بھی معلوم ہو گیا ہو گا۔ آئی ایم ایف سے ٹاسک انہوں نے خود مانگا کہ معافی تلافی کا معاملہ تھا اب ایک بات تو واضح ہو گی کہ درمیان میں پردہ نہیں رہا اب ہم بلاواسطہ یا براہ راست غلام بن چلے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ عوام براہ راست آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ باندھ دیں۔ مگر یہ عوام کی حمیت اجازت نہیں دیتی ویسے بھی ان کے ہاتھ حکومت نے باندھے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کو ویسے بھی عوام سے کیا سروکار۔حکم دینے والے کو حکم ملے گا اور بس۔ چلیے اب ذرا ایک اور دلچسپ معاملے پر بات ہو جائے کہ بڑے بڑے قانون دان سر جھٹک کر بیٹھے ہیں اور حکومت کو مشورے دے رہے ہیں کہ انتخابات کرائیں فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ 90روز میں الیکشن کا حکم کسی بھی وقت دے سکتی ہے وقت کیسے رک سکے گا سوچتا رہتا ہوں میں ویسے یہ 90کا ہندسہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں عام ہوا ویسے یہ 90روز آئین والے نہیں تھے خیر یہ چیف جسٹس بھی تو زور لگا چکے ہیں۔ بات تو حکم کے لاگو ہونے کی ہے۔ایک بات سراج الحق صاحب نے بھی کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عدالت اور الیکشن کمیشن غیر جانبدار رہیں کمال آپ ان تینوں سے پوچھ کر دیکھیں وہ غیر جانبدار ہیں ویسے غیر کا لفظ بھی کوئی اچھا لفظ نہیں کوئی غیر نہیں سب اپنے ہیں ویسے کیا حالات ہوتے ہیں کہ کرکٹ بھی مزہ نہیں دیتی کسی شے میں دل نہیں لگتا۔ بھارت والے تو چاند پر پہنچ کر بھی خوش نہیں کہ انہیں بھی یقین ہے کہ بھارت تباہی کی طرف جا رہا ہے لیکن ہماری ترقی کے اشارے تو سب اوپر ہی اوپر جا رہے ہیں۔ اگر ریلیف کا لفظ بے معنی ہو چکا ہے تو ترقی کا بھی بہرحال ہمارا شعر خوب وائرل ہوا ہے: بجلی کے بل نہیں ہیں یہ ڈاکہ ہے سربسر تاریک ہو گئے ہیں غریبوں کے گھر کے گھر