ربیع الاول کاپورا مہینہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے سے دین پرعمل پیرا رہیں۔ زندگی گزارنے میںآپ کے بتائے ہوئے طریقے کے بغیر ہم ناکام اورنامراد ٹھریں گے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ جگمگاتا اور روشن آفتاب ہے جس سے زندگی کی راہیں روشن اور ظلمتیں کا فور ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کی سیرت طیبہ کو مشعل بنا کر ہر دور کے ایوان حیات کو منور کیا جا سکتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر لمحہ انسانیت کی نجات کے لئے مکمل رہنمائی کا ضامن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل ،آپ کے ارشادات، معمولات اورمعملات ،اسوہ حسنہ کہلاتا ہے جوکل ، آج اورتا قیامت پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل اور راہ نجات ہے۔ سیاست ،معیشت ومعاشرت ،میدان حرب وضرب، صلح وجنگ، ایوان عدل و انصاف دنیا میں عروج اورآخرت کی کامیابی غرض ہر معاملے میں آپ کی سیرت طیبہ اورآپ کے اسوہ حسنہ نمونہ عمل ہے۔ آپ کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ ہے۔ آپ کے نقوش پا پوری انسانیت کے لئے راہنما ہیں۔ آپ کے اسوہ حسنہ اور آپ کی سیرت طیبہ کے مطابق زندگی گزار نا مسلمان کی کامیابیوں کی بنیاد ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطریق احسن خود عمل کر کے فرائض دین کی ادائیگی کاطریقہ سکھایا ، دین پر استقامت کاسلیقہ دکھایا،زہد وقناعت اختیار کرنے، غربا اور مساکین کی اعانت کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، عفوودرگزر اور صبر وشکر کرنے کی تلقین فرمائی ۔ آپ نے بکھرے ہوئے اور باہم دست وگریبان لوگوں کوایک دین پر لا کر کھڑا کر دیا،دشمنیوں اورنفرت کی آگ میں جلے بھجے دلوں کو رحم ،محبت اوراخوت سے سرشار کیا۔کلمے کی بنیاد پر مشرق ومغرب اورشمال جنوب غرض چاردانگ عالم مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بناکر ایک امہ کی لڑی میں پرو دیا۔آپ نے تمام خودساختہ امتیازات ختم کردئیے جس کے بعد گورے کوکالے اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیںرہی۔ عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پرکوئی برتری نہیںرہی۔ توقیر اور بڑھائی کا ایک ہی معیار طے کر دیا گیا کہ وہی سب سے بہتر ہے جو تقویٰ میں بہتر ہے۔ آپ کے برپا کیے ہوئے انقلاب میں فرد تبدیل ہوئے دلوں کو صیقل کیا گیا۔ انصاف اور عدل کی ایسی مثال قائم فرمائی کہ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔آپ صلی اللی علیہ وسلم کی امت اؤج ثریا پر متمکن ہونا چاہتی ہے۔ ہماری بدبختی کانتیجہ ہے کہ آج آپ کا اسوہِ حسنہ ہمارا مرکزاتباع نہیں۔ آپ کی تعلیمات ہمارا معیار عمل نہیں۔آپ کے ارشادات ہمارے لیے چراغِ راہ نہیں۔بدعات و خرافات کو ہم نے عشقِ رسول کا نام دے رکھا ہے۔ہم خواہشاتِ نفس کے غلام ،ہم حرص و ہوس کے بندے ۔ہم حیاتِ دنیا کے اسیر ۔ہم قوالوں کے دھنوں پر سر دھنتے ہیںاورنعت خوانوں کی آواز پر جھومتے ہیں۔پر اپنی زندگی کے معاملات میں آپ کی اطاعت و پیروی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے ایمان کا ۔لیکن وہ قرآن، وہ پیغام ، وہ تعلیم جو لے کر آپ تشریف لائے۔ہم اس کے مطابق زندگی گزارنے سے گریز پا ہیں۔آپ نے اچھے اخلاق کو ایمان کی کاملیت کی دلیل بتایا ۔پر ہم اخلاقی گراوٹ سے اوپر اٹھنے پر آمادہ نہیں ۔ اس لیے دولتِ ایمان سے بھی خالی ہیں۔آپ نے ایمان کے رشتے کو ہماری اخوت کی بنیاد بنایا۔پر ہم نے ذات، قوم قبیلے ، رنگ، نسل اور زبان کو اپنے لیے وجِ افتخار بنا لیا۔ ہم نے آپ کے لائے ہوئے خالص دین میں فرقوں کے نام سے اس میں بال و پر نکال کر اسے پارہ پارہ کر دیا۔آپ نے تلقین فرمائی تھی کہ پیغامِِ حق لے کر اٹھو اور دنیا پرچھاجائو ۔پر ہم ایک دوسرے کو خوارج قراردیکر دائرِ اسلام سے ہی خارج کر رہے ہیں۔ آپ نے مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل کو کفر اور مسلمان کی زبان سے دوسرے مسلمان کو گالی گلوچ کو فسوق یعنی کھلا اور بھاری گناہ قراردیا تھا۔ آپ نے گراں بازاری اورذخیرہ اندوزی ، خیانت ،جھوٹ دھوکہ بازی ،دغابازی ،فراڑکرنے،فریب کاری ،بداعتمادی ،بے اعتباری سے منع فرمایا۔پرہم گراں بازاری اورذخیرہ اندوزی ،خیانت کرنے ،جھوٹ بولنے، دھوکہ باز ی، ،فریب کاری ،بداعتمادی اوربے اعتباری میں اپناثانی نہیں رکھتے۔ غیرت ہماری پہچان نہیںرہی۔ تعاون علیٰ البر ہمارا شیوانہیںرہا۔مساجدتو اللہ کے گھر ہیں، پرافسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم نے ان کو فرقوں اورمسالک کے قلعوں میں تبدیل کر کے ان پر مسجد سلفی ،مسجد دیوبندی اورمسجدبریلوی کے بورڈ چڑھاکریہ ثابت کیا کہ ہماری پہنچان امت مسلمہ نہیں بلکہ سلفیت،دیوبندیت اوربریلویت اورنہ جانے کیاکیا ہے۔ہم آپ کی ذات اقدس سے بے پناہ محبت کا دعویٰ تورکھتے ہیںپر آپ کی سنتِ مطہرہ سے صاف انکار کئے بیٹھے ہیں۔جہاں رب الکریم نے ہمیں یہ عظیم سعادت نصیب فرمائی کہ ہم آپکے امتی ہیں۔وہیںہمیں امت وسط قرار دیکرہم پربہت بڑی ذمہ داریاں بھی عائد کر دی گئیںہیں ۔ہم آج جن حالات میں گھرے ہوئے ہیں اس پرہم اپنامحاسبہ کرنے کے لئے تیارنہیں۔ ہماری ذلت اورپستی کی واحدوجہ یہ ہے کہ ہم اسوہ حسنہ اورسیرت طیبہ سے منہ موڑچکے ہیں۔اللہ کی غلامی کے بجائے ہم غیراللہ کے غلامی اختیارکرچکے ہیں۔جس پرکب کی ہم پر وہ گھڑی آ پہنچی ہے جس کی خبر آپ نے دی کہ’’ دنیا کی قومیں تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے پلیٹوں پر لپکتے ہیں۔عرض کیاگیااس کی وجہ کیاہوگی ۔فرمایا’’حب دنیاوکراہت الموت ،زندگی سے محبت اورموت سے نفرت۔ یہ اسوہ حسنہ سے روگردانی ہی کانتیجہ ہے کہ ہماری مجموعی حالت یہ ہے کہ صفیں کج ، دل پھٹے ہوئے اوردنیاسے رادے کمزورہیں۔آخرت ہماری منزل نہیںرہی ۔ امید ہماری سواری نہیںرہی۔ محبوبِ کائنات کی حیات مبارکہ کو خالق کائنات نے اسوحسنہ سے تعبیر کیا ہے ۔لقد کان لکم فی رسول للہ اسوہ حسنہ کلامِ مجید فرقانِ حمید میں تو ربِ کائنات کے فرمان کا مطلب و مقصد یہ بتانا ہے کہ سیرتِ طیبہ کا بیاں محض سماعت کیلئے نہیں بلکہ اس کے سامنے اپنی زندگیوں کامتکبرسر نگوں کرکے سراسر اطاعت وپیروی کیلئے ہے۔سیرت طیبہ کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے گزشتہ کا احتساب اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرکے فلاح و صلاح انسانیت کے لئے ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ مشغول ہو جانے کاعزم کرناسیرت طیبہ کاعملی مطالبہ ہے۔