کبھی سوچا نہیں تھا کہ امریکہ کا سفر کروں گی۔ طویل ترین فلائٹ کا سوچ کر ہی دل بیٹھ جاتا تھا۔ پہلے تو مجھے ویزا لگوانے کے لیے اسلام آباد ایمبیسی میں جانا دْشوار ترین کام لگا تھا۔ بیٹی کے پْر زور اصرار پر ہم سب نے یہ کٹھن سفر بھی طے کر لیا۔ ڈیڑھ سال کے بعد ہمارے انٹرویو کی باری آ گئی۔ شدید گرمی اور کڑکتی دھوپ میں پارکنگ لاٹ سے نکل کر ہم ٹوکن لینے کو ایک بڑے سے ہال میں پہنچے جہاں صرف پنکھے چل رہے تھے کوئی ائیر کنڈیشنر نہیں تھا۔ وہاں سے ٹوکن لینے کے بعد اگلا مرحلہ ٹیکسی کے لیے انتظار کرنا تھا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ہماری باری آ ہی گئی۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم بیس سے پچیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد انٹرویو کی طویل قطار میں پہنچے۔ . شدید دھوپ میں بغیر کسی سائے کے لوگ قطار میں کھڑے تھے۔ہم چونکہ اپنے رْوماٹائیڈ آرتھرائٹس کی وجہ سے دو منٹ بھی کھڑے نہیں ہوسکتے تو ٹیکسی ڈرائیور سے کہا: ’’بھیا جی! کیا ہمیں وہیل چیئر مل جائے گی کیونکہ یہاں نہ تو کوئی بیٹھنے کو بینچ ہے نہ کرسی۔‘‘ خدا بھلا کرے اس کا جھٹ پٹ سے اس نے کہیں سے ایک وہیل چیئر لا دی۔ اس کا اضافی فائدہ یہ ہوا کہ مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو قطار میں کھڑا نہیں کیا گیا بلکہ سیدھا اندر لے گئے۔ وہیل چیئر والوں کا الگ ہی پروٹوکال ہوتا ہے۔ گھنٹے ڈیڑھ کے پروسیس میں جس میں ہماری پاسپورٹ سائز نئی تصاویر بھی بنائی گئیں، وغیرہ ضروری مراحل طے پا گئے۔ پھر ایک کھڑکی پر ایک ویزہ آفیسر نے ہمیں بْلوا لیا۔ چند مختصر سوالات کے بعد ہمیں یہ نوید سْنا دی گئی کہ ہمیں امریکہ کا ویزہ جاری کر دیا گیا ہے۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہوئی کہ چلو مشکل مرحلہ طے ہوا اب پانچ برس کا ویزہ ہے لہذا کبھی بھی ٹکٹ پکڑ کر اْڑان بھری جا سکتی ہے۔ یہ جو محبت ہے ناں یہ کہیں بھی لے جا سکتی ہے۔ 11 مارچ رات گئے ایمریٹس ایئر لائن پر اپنی اور اپنے بیٹے کی ٹکٹ کے ساتھ ہی ہم نے اپنے لیے وہیل چیئر بھی بْک کروا دی کیونکہ ڈیڑھ مہینہ بھر پہلے غسل خانے میں چاروں شانے چِت گرنے کی وجہ سے شکر ہے ہڈیاں تو ٹوٹنے سے بچ گئیں مگر ریڑھ کی ہڈی میں مَسل سپیزم ہو جانے کی وجہ سے چار قدم چلنا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ خیر لاہور ایئر پورٹ پر تقریباً چالیس منٹ کے انتظار کے بعد خراماں خراماں ایک قْلی ہمارے لیے وہیل چیئر لیے ہوئے آیا۔ چھوٹے بیٹے کو گلے لگا کر خدا حافظ کہا اور چل پڑے۔ وہیل چیئر والوں کو کسی قطار میں نہیں لگنا پڑتا۔ کہیں کہیں گھڑی دو گھڑی شاید رْکے ہوں تو رْکے ہوں بلکہ ماں کے ساتھ بیٹے کی بھی عیش ہو گئی۔ بورڈنگ کارڈ ملنے کے بعد ہمیں وی۔ آئی پی کی انتظار گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ تقریباً سات سال بعد میں کسی سفر پر روانہ ہوئی۔ کووڈ کا ایسا نادیدہ خوف تھا کہ سفر کے نام سے ہی لرزہ طاری ہو جاتا۔ اب جو لاؤئج میں بیٹھے تو خیال آیا کہ رات کا کھانا تک نہیں کھایا، سفر کے سٹریس کی وجہ سے۔ وہاں سے چکن پیٹیز، برگرز اور گلاب جامن کھائے، گرما گرم چائے کے ساتھ۔ کْرسیاں بھی نہایت آرام دہ، شور شرابہ بھی نہیں تھا۔ لوگ اپنے فونوں کے ساتھ مصروف تھے۔ ایک فیملی کے ساتھ چھوٹے بچے تھے جو مسلسل میک ڈونلڈ کھائے جا رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے غزہ کے معصوم بچے یاد آگئے جو بچ گئے وہ بھوک سے بِلک کر شاید مر جائیں۔ گھڑی نے رات کے تین بجائے تو فلائٹ کی روانگی کا اعلان ہوا۔ جہاز کے داخلی دروازے تک ہمیں پہنچایا اور یوں ہم دْبئی کے لیے اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ دْبئی پہنچنے پر صبح کا سورج نکل چکا تھا۔ ہماری اگلی فلائٹ دو گھنٹے بعد تھی۔ ایک نوجوان ہماری کرسی کو دھکیلنے کو کھڑا تھا۔ دبئی کا ایئر پورٹ اتنا وسیع ہے کہ ہمیں گیٹ نمبر 8 تک پہنچنے میں پورے پنتالیس منٹ لگ گئے۔ وہ نوجوان ہمیں بتا رہا تھا کہ وہ لاہور رائیونڈ کا رہائشی ہے۔ کووڈ سے پہلے وہ کسی کمپنی میں پکا ملازم تھا۔ پھر نوکریاں ختم ہو گئیں۔ تین سال قبل اس کو دبئی ایئر پورٹ پر قلی کی نوکری ملی۔ بہر حال وہ اپنی تنخواہ سے خوش تھا مگر فیملی سے دوری پر اداس ضرور تھا۔ جہاز کے خوش اخلاق اور خوب صورت عملے نے مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ اب یہ جہاز چودہ گھنٹے کی طویل مسافت کے لیے اْڑ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر کے بعد مزے دار ناشتے کی ٹرے آگئی۔ پھر جہاز کی بتیاں گْل کر دی گئیں تاکہ مسافر کچھ نیند کے مزے لْوٹ سکیں۔ اردگرد کے سب لوگ سو گئے بس ایک میں تھی نیند جس کی آنکھوں سے کوسوں دْور تھی۔ مجھے کبھی بھی دورانِ سفر نیند نہیں آتی۔ اپنی پسند کی دو تین فلمیں بھی دیکھ لیں۔ اسی دوران لنچ ٹائم ہو گیا۔ کھانے کے بعد پھر ہم لاؤنج میں گئے اور عملے کے ساتھ گپیں لگائیں۔ پال لمبا وجہیہ اور خوب صورت مسکان والا فرانسیسی نوجوان تھا۔ کہنے لگا میں فرانسیسی ہوں اس لیے میں پرفیکٹ ہوں۔ وکٹوریا اٹلی کے رومانوی شہر وینس کی رہنے والی تھی مگر ویسے دْبئی میں قیام پذیر تھی۔ کبھی وہ لوگ مجھے بْھنے ہوئے بادام اور کاجو سنیکس کے طور پر پیش کرتے تو کبھی پھل۔ اسی طرح باتوں میں جہاز کا خوشگوار سفر کٹ گیا اور ہم سْپر پاور امریکہ کی سرزمین پر اْتر گئے۔ اب باری آئی امیگریشن کی۔ ہمیں تو ایک سوال بھی نہ کیا مگر ہمارے نوجوان بیٹے کو ایک علیحدہ دفتر میں لے گئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد اسے فارغ کیا۔ اس سے مختلف سوالات پوچھے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی توڑ پھوڑ سے لے کر ہمسایہ ممالک تک۔ اتنی تگ ودو کے بعد ہم نیو یارک کے JFK ہوائی اڈے سے باہر نکلے جہاں ہماری پیاری بیٹی اور داماد ہمیں خوش آمدید کہنے کو آئے ہوئے تھے۔ سفر کا بقیہ حصہ اگلے کالم میں۔ ٭٭٭٭٭٭