غزہ میں وحشت کا کھیل تو سب کے سامنے ہے لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ مغربی کنارے میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوتا آیا ہے۔ یہ علاقہ فلسطین کا ہے لیکن اسرائیل مسلسل یہاں قبضے کر کے اپنی ناجائز کالونیاں قائم کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے اور کوئی اسرائیل کو روکنے والا نہیں۔مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں اسرائیل نے مقبوضہ جات کے اندر فلسطینیوں کی زمین پر قبضے کر کے غیر قانونی اور ناجائز طور پر ہاوسنگ کالونیاں بنا رکھی ہیں۔ ان رہائشی کالونیوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک کو Settlement کہا جاتا ہے، یہ باقاعدہ حکومت اسرائیل کی اجازت سے قائم ہوتی ہیں اور دوسری کو Outpost کہتے ہیں، بظاہر یہ بغیر اجازت کے قائم ہوتی ہیں۔ تاہم عملی طور پر دونوں میں اسرائیلی حکومت کا تعاون اور سرپرستی موجود ہوتی ہے اور دونوں انٹر نیشنل لا کی خلاوف ورزی ہیں۔ اور ان کا شمار جنگی جرائم میں ہوتا ہے۔اس وقت مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں ناجائز اسرائیلی settlements کی تعداد 150 ہے جب کہ ناجائز outposts کی تعداد 128 ہے۔ ان 278 غیر قانونی بستیوں میں مجموعی طور پر 7 لاکھ یہودی آباد ہیں۔ یہ اسرائیل کی کل آبادی کا 10 فیصد ہیں۔Settlements ہوں یا outposts، دونوں اسرائیلی پالیسی کا حصہ ہیں۔ کہنے کو تو مغربی کنارہ آزاد فلسطین کا حصہ ہے اور یہاں اسرائیلی قبضہ نہیں ہے لیکن زمینی حقیقتیں مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کو تین زونز میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایریا اے کا رقبہ صرف 18 فی صد ہے اور یہ فلسطینی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔ ایریا بی کا رقبہ 22 فی صد ہے اور یہ اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ جب کہ ایریا سی جس کا رقبہ 60 فی صد ہے مکمل طور پر اسرائیلی عملداری میں ہے۔ یعنی مغربی کنارے کا 82 فی صد تو اعلانیہ طور پرا سرائیلی قبضے میں ہے۔ یہاں مسلمانوں کو عملًا محصور رکھا گیا ہے اور وہ ایک طرح سے جیل میں زندگی گزار رہے ہیں، انہیں محدود تر کر دینے کے لیے اسرائیل نے یہاں 700 کلومیٹر لمبی دیوار تعمیر کر رکھی ہے۔ دیوار کے ایک طرف بر ی حالت میں مسلمان رہتے ہیں دوسری جانب سہولیات سے مزین ناجائز قابض یہودیوں کی بستیاں ہیں۔ سڑکوں پر 140 چیک پوائنٹس ہیں جن سے گزر کر فلسطینی ایریا سی تک پہنچ سکتے ہیں جو قانونی طور پر ان کا اپنا علاقہ ہے۔ ان علاقوں میں یہودی آبادکاری اسرائیل کی پالیسی کا حصہ ہے۔ مزید یہ کہ مغربی کنارے کی 26 فیصد زمین کو اسرائیل نے سٹیٹ لینڈ قرار دے رکھا ہے اور اس کے مطابق اس زمین کا استعمال اس کی مرضی ا ور صوابدید پر ہے۔ یعنی ریاست فلسطین کے علاقے کی سرکاری زمین پر بھی قبضہ اسرائیل کا ہے۔ان علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کو، چاہے وہ Settlements ہوں یا outposts، اسرائیل تمام سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ایریا سی میں قائم ان بستیوں کے مکینوں کے لیے اسرائیل نے 10 ملین ڈالر سالانہ کا بجٹ رکھا ہوا ہے جو انہیں صرف اس لیے دیا جاتا ہے کہ یہ یہاں مسلمانوں پر نظر رکھیں کہ کہیں وہ تو کوئی گھر وغیرہ نہیں بنا رہے۔ یہ آبادکار ایک طرح سے اسرائیلی فوج کے جاسوس یونٹ کا کام کرتے ہیں اور انہیں ڈرون، دیگر ڈیوائسز اور گاڑیاں وغیرہ فراہم کی جاتی ہیں تا کہ وہ موثر مانیٹرنگ کر سکیں۔آبادکاروں کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس آبادکاری کی قانونی حیثیت دیکھ لی جائے۔ اسرائیل کو انٹر نیشنل لا یہ حق نہیں دیتا کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقہ جات میں اپنی بستیاں قائم کرے اور وہاں اپنی شہری آبادی کو منتقل کرے۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس کام کی ممانعت ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ، جیسے کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، چند بنیادی اصول طے کر دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق: کسی مقبوضہ علاقے سے آبادی کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ قابض قوت کو یہ حق بھی نہیں کہ کسی کو جبری طور پر کسی دوسرے علاقے یا کسی دوسرے ملک میں دھکیل دے۔ آبادی کے جبری انخلا اور منتقل کرنے پر پابندی ہو گی چاہے اس کا مقصد کچھ بھی کیوں نہ ہو۔اسرائیل کا موقف رہا ہے کہ جنیوا کنونشن اس پر لاگو نہیں ہوتا تاہم عالمی عدات انصاف 2004ء کے اپنے ایڈوائزری اوپینین میں واضح طور پر لکھ چکی ہے کہ ا سرائیل کا موقف غلط ہے اور اسرائیل پر جنیوا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے۔انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے 13 کے 13 ججز میں اس بات پر اتفاق تھا کہ انٹر نیشنل لا کے تحت ا سرائیل کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ فلسطینی علاقے میں بستیاں قائم کرے اور پھر اپنے آبادی کے ایک حصے کو وہاں منتقل کر دے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 446 میں بھی اسرائیل کے اس عمل کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اس قرارداد کے مطابق: 1.فلسطینی مقبوضہ جات بشمول یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز ہے اور یہاں جنیوا کنونشن کا اطلاق ہوتا ہے۔ 2.فلسطینی مقبوضہ جات میں اسرائیلی کی جانب سے بستیوں کے قیام کی کوئی قانونی گنجائش موجود نہیں۔ یہ غیر قانونی ا ور ناجائز کام ہے۔ 3.سلامتی کونسل اسرائیل سے کہتی ہے کہ وہ فلسطینی مقبوضہ جات میں اپنی آبادی کو منتقل کرنے کے عمل سے باز رہے اور جنیوا کنونشن کی پابندی کرے۔جنیوا کنونشن کی ہائی کانٹریکٹنگ پارٹیز نے 2014ء میں ایک اعلامیہ جاری کیا۔ 126 ممالک نے اس اعلامیہ میں اسرائیل کی اس آبادکاری کو ایک ناجائز اور غیر قانونی عمل قرار دیا۔سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 2343 میں بھی فلسطین کی زمین پر اسرائیلی قبضے کو جانائز اور غیر قانونی قرار دیا۔ اس قرار داد میں اسرائیلی کی ان علاقوں میں قائم بستیوں کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی تعمیر روک دینے اور ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ جنیوا کنونشن کے اصولوں کی پاسداری کرے۔ چار ویٹو پاورز نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ کسی ایک نے بھی مخالفت نہیں کی۔ امریکہ غیر حاضر رہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی قرارداد 465، 452، 471 اور 478 میں بھی اسرائیل کی ان بستیوں کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے فی الفور یہ سلسلہ ختم کرنے کا کہہ چکی ہے۔ ہبریو یونیورسٹی آف یروشلم کے قانون کے استاد اور یہودی دانش ور ڈیوڈ کرٹزمر کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ مغربی کنارے پر ایک قابض قوت نہیں، جیسا کہ اس کے لیوی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تو وہ اپنی ان ناجائز بستیوں کو خالی کیوں نہیں کر دیتا۔اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل بھی اسرائیل کی ان بستیوں کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے انٹر نیشنل لا سے متصادم قرار دے چکی ہے۔ ( جاری ہے)