زندگی جن کی عشق رسولؐ میں گزر گئی،اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہاری زندگی کا حیرت انگیز واقعہ کیا ہے؟تو میں بلا سوچے سمجھے کہہ دوں گا۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خان۔اور اگر کوئی پوچھے گا کہ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟تو میں بلا کم و کاست کہہ دوں گا ڈاکٹر غلام مصطفی خان۔اور اگر کوئی پوچھے گا کہ تمہاری کی سب سے بڑی محرومی کیا ہے؟تو میں بلا خوف و تردید کہہ دوں گا۔ وہ وقت جو میں نے ڈاکٹر صاحب سے دور رہ کر گزارا یا آج جب وہ اس دنیا میں نہیں۔ اور اگر کوئی پوچھے کیوں؟ تو میں جھٹ سے کہہ دوں گا کہ اگر میں ڈاکٹر صاحب سے نہ ملتا تو میں باقی زندگی بھی کسی صاحب کشف، صاحب دعا اور صاحب نظر بزرگ سے ملاقات کی خواہش ہی میں گزار دیتا۔ اگر میں اس ولی کامل سے نہ ملتا تو مجھے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ روحانی دنیا کیا ہوتی ہے۔ خدا سے محبت کا مطلب کیا ہے۔ اس کے سامنے سجدہ کرنے کے آداب کیا ہیں اور اس کے حضور مانگنے کا طریقہ کیا ہے۔ اگر میں ڈاکٹر صاحب سے نہ ملا ہوتا تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اللہ سے دوستی کا رشتہ کیسے استوار کیا جاتا ہے۔ میری خوش قسمتی کا یہ وہ وقت تھا جب میں سندھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ ایک دن یونیورسٹی کے شعبہ آرٹس کے کوریڈور میں جب اس باعمل عالم کو دیکھا تو میرے لئے یہ حیران کن منظر تھا کہ اس راہداری میں گزرنے والے تمام طلبا و طالبات اور اساتذہ یکدم مودب ہوگے اور ایک طرف ہوکر اس باریش بزرگ کی تعظیم میں چلتے چلتے رک گئے۔ طالبات نے سروں پر دوپٹے درست کرلئے۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جب دل نے گواہی دی کہ اللہ کے دوست ایسے ہی ہوتے ہیں۔اسی دن حیدر آباد شہر میں واقع سندھ یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے عقب میں واقع گھر میں ایک دوست کے توسط سے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ دوست پہلے ہی ڈاکٹر صاحب سے عقیدت کی روشنی حاصل کرچکا تھا۔ بس یہی وہ دن تھا جب یہ احساس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کے زیر سایہ زندگی کے نہ جانے کتنے اسرار و رموز سمجھ میں آئے۔ ان کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ ہم جیسے گناہگاروں کیلئے بہت بڑی ڈھارس تھی۔ وہ بہت دھیمے انداز میں گفتگو کرتے۔ سچ پوچھیں تو ان کی آنکھوں میں دلوں تک پہنچنے والی روشنی محسوس ہوتی تھی۔پھر ہم ہر جمعرات اورجمعہ کو عصر اور مغرب کی نماز ان کی امامت میں پڑھتے۔ بعد میں رقت آمیز دعا ہوتی۔ میں سوچتا کہ یہ کیسے روشن ضمیر استاد اور مقناطیسی شخصیت کے مالک ہیں۔ چاندی جیسی نرم میٹھی مسکراہٹ اور گہری عمیق آنکھوں کے ساتھ نظر ڈالتے تو میں سوچتا کہ یہ کیسے درویش ہیں جو ہم جیسے گناہگاروں کو ڈانٹتے تک نہیں۔ جو سامنے بیٹھے شخص کو گناہگار ہونے کا احساس ہی نہیں دلاتے۔ یہ میری بدقسمتی رہی کہ میں ان کی بے شمار محفلوں میں بیٹھ کر بھی تصوف کے سفر او روحانیت کے کمالات سے آشنا تو ہوگیا لیکن ان بہت سی خوبیوں کو اپنی شخصیت کا مستقل حصہ نہ بناسکا۔ لیکن پھر بھی شکر ہے کہ میں نے یہ سبق ضرور یاد کرلیا کہ اللہ کے سامنے جھکنے اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا ادب اور اسلوب کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی محفلوں میں طویل عرصے تک بیٹھنے سے ناجانے کتنے باکمال شخصیات سے ملنے اور ان سے ارادت کا رشتہ قائم کرنے کا موقع ملا۔ یہ سب لوگ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ بے شمار طلبا و طالبات بھی تھے۔ یہ سب ڈاکٹر صاحب سے دعاؤں کے متمنی رہتے۔ صحابی نے فرمایا جب بھی ہم رسول اللہ ؐ کی محفل میں بیٹھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو محسوس ہوتا جیسے رسول اللہ ؐ کی تمام تر توجہ مجھ پر ہی مرکوز ہے۔ وہ اس ہجوم میں صرف اور صرف مجھے ہی چاہتے ہیں۔ڈاکٹر غلام مصطفی خان بھی ایسے عاشق رسولؐتھے۔ رسول اللہؐ کا تذکرہ ہوتا تو آنکھیں نم ہوجاتی تھیں۔ صبح صادق کے ساتھ بیدار ہوتے۔ تلاوت کلام پاک زندگی کا معمول تھا۔ آپ سادگی، شرافت اور ایمانداری کا پیکر تھے۔ شکل و صورت' قول و فعل' نشست و برخاست' چال ڈھال' خیالات اور احساسات سے اپنے چاہنے والوں کیلئے مثالی تھے۔ڈاکٹر صاحب ایک مشفق استاد بھی تھے۔ ان کا ہر عمل ان کی باتیں آج یاد آرہی ہیں۔ وہ کتنے لوگ یاد آرہے ہیں جو ان محفلوں کی بدولت دوست بنے جو اپنی عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرنے یہاں آیا کرتے تھے۔ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر برادرم آغا نیاز مگسی نے 25 ستمبر کو ان کے یوم وفات کے موقع پر ایک نظر ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر غلام مصطفی خان یکم جولائی 1912ء کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں اور 1947ء میں پی ایچ ڈی کیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے زمانہ طالب علمی میں ذہین طلبا میں شمار ہوتے تھے۔ وہ محنتی بھی تھے اور ذہین بھی۔ ڈاکٹر صاحب 1936ء سے 1948ء تک ناگپور یونیورسٹی کے شعبے اردو سے وابستہ رہے۔ ناگپور وہی شہر ہے کہ جہاں بابا تاج الدین اولیا ناگپوری کا مسکن تھا۔ یہ اللہ کے بڑے برگزیدہ ولی تھے۔ ان کے بڑے کرشمے مشہور ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ اپنے جن بندوں سے راضی ہوتا ہے ان کو کچھ غیر معمولی صلاحیتیں عطا کردیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری زندگی مثالی انداز میں گزاری۔ ہزاروں چاہنے والوں کو متاثر کیا۔ ان کی زندگیوں میں خیر اور نیکی کی روح پھونکی۔ قرآن' حدیث' اقبال اور ادب پر ایسا بیدار اور روشن کام کیا جس سے آنے والے ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے۔ پھر 25 ستمبر 2005ء کو جلیل القدر ممتاز روحانی شخصیت،محقق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفی خان حیدر آباد میں وفات پاگئے اور اپنے رب کے سامنے پیش ہوگئے۔