کچھ دن قبل ایک خبر نظر سے گزری جس میں بیورو آف امیگریشن اینڈ اْورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ سال آٹھ لاکھ بَتیس ہزار، تین سو اْنتالیس پاکستانیوں نے پاکستان چھوڑ دیا اور بیرون ِ ملک چلے گئے۔ دو ہزار سولہ کے بعد یہ سب سے زیادہ تعدا د ہے کہ پاکستانیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ روزگار کے لئے دوسرے ممالک کا رخ کریں گے۔ اِس تعداد میں سب سے زیادہ یعنی پانچ لاکھ چودہ ہزار سے زائد افراد نے اکیلے سعودی عرب کا رْخ کیا۔ رواں سال ملک چھوڑنے کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ہماری معیشت تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے۔ یہ سچ اقتدار کے ایوانوں میں مزے لوٹتے افراد ہی جانتے ہیں یا پھر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے، غربت نے غریبوں کی عزت اور سفید پوش حضرات کی خودداری زمین بوس کردی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا پیٹ پالنے کے لئے باہر کا رخ کریں۔ وہ یہ سوچنے میں حق بجانب بھی ہیں۔ کیونکہ کوئی ایک سیاسی خاندان نہیں ہے جس کا باہر کاروبار نہ ہو، کوئی ایک ایسا طاقتور بیوروکریٹ نہیں ہے جس نے دورانِ ملازمت باہر گھر نہ لے لیا ہو اور اپنے خاندان کو وہاں منتقل نہ کردیا ہو۔ عوامی خدمت کے نام پر لوٹ مار کرنے والے سرکاری ہرکارے سبھی نے اپنی معاشی، معاشرتی اور مالی وسعت کے مطابق بیرونِ ملک منتقل ہونے کا مکمل منصوبہ بنا رکھا ہے۔ بارہ ستمبر 2012ء میں کراچی میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں آتشزدگیسے تین سو افراد جاں بحق جبکہ چھ سو افراد جھلس گئے تھے۔ اْسی دن لاہور میں جوتے بنانے والی ایک اور فیکٹری میں بھی آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ کراچی آتشزدگی کا واقعہ پاکستانی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا جس میں تین سو مزدور جان کی بازی ہار گئے تھے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان اْس وقت اَٹھاون اعشاریہ چار ملین تربیت یافتہ افراد کے ساتھ دنیا میں دسویں نمبر پر تھا جہاں بہت زیادہورک فورسموجود ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی یہ فیکٹری اپنا سامان یورپ کے مختلف ممالک اور امریکہ میں بھی برآمد کرتی تھی اور تقریباًَ پچاس ملین ڈالرز کا کاروبار کررہی تھی۔ آغاز میں کہا گیا کہ فیکٹری میں آگ اس وجہ سے لگی کیونکہ بلڈنگ بائی لاز کی پابندی نہیں کی گئی تھی باہر نکلنے کے لئے راستہ نہیں تھا۔ جبکہ سات فروری 2015ء میں اِس کیس میں ایک نیا موڑ آیا جب پاکستان رینجرز نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق کراچی کی ایک مقامی سیاسی جماعت کو سانحہ کراچی کا موردِ الزام ٹھرایا گیا یہ سیاسی جماعت فیکٹری کے مالک سے بھتہ وصول کرنا چاہ رہی تھی۔سیاسی جماعت کے ایک رکن محمد رضوان قریشی نے پولیس اور رینجرز کو دورانِ حراست یہ بیان دیا تھا کہ جماعت نے 200 ملین بھتے کا مطالبہ کیا تھا اور انکار پر اْس جماعت کے کارکنوں نے فیکٹری کو نذرِ آتش کردیا ۔ فیکٹری مالک نے مقامی جماعت کے (سابق) گورنر سندھ اور سی پی ایل سی کے سابق چیف کا نام لیا۔ جب ساری صورتحال واضح ہونے کے باوجود کسی ادارے کے کان پر جوں نہ رینگی تو کراچی سے ساری صنعت بنگلہ دیش منتقل ہوگئی کیونکہ بنگلہ دیش نے تاجروں اور صنعت کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ کے ساتھ ساتھ کاروبارو کرنے کے لئے پورا تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پینتالیس ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ ہمارے شاید تینارب ڈالرز بھی نہیں رہے۔ یہ سب اِس لئے بھی یاد آیا کیونکہ چند دن قبل کراچی کے تھانہ زمان ٹاؤن ضلع کورنگی میں مقدمہ نمبر 250/21نظر سے گزرا جس میں مدعی محمد عرفان ولد جان محمد نے یہ اعتراف کیا کہ وہ مقامی سیاسی جماعت سمیت کئی دیگر بدمعاش دھڑوں کو بھتا ادا کرتا رہا ہے تاکہ وہ اس شہر میں کام کرسکے۔ اِ س دوران عرفان کو بھتے کی پرچیاں مسلسل ملتی رہیں جب تنگ آکر اْس نے بھتا دینے سے انکار کردیا تو اْس پر ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کرادی گئی۔ عدالت سے باعزت بری ہونے کے باوجود اْسے طرح طرح سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اْسے گھر سے اغوا کرنے کی کوشش تک کی گئی۔ یہ وہ کراچی ہے جو روشنیوں کا شہر کہلاتا ہے ۔اسے اہل ِ اقتدار کی نظر لگ گئی ہے۔اہل ِ اقتدار نے کراچی میں سیاسی مفاد کے لئے وہاں دھڑے بندیا ں شروع کردیں اور اب کراچی کئی سال کی کوششوں کے باوجود امن کا گہوراہ نہیں بن پا رہا۔ اِسی طرح پنجاب کے آخری شہر صادق آباد سے آگے اور سندھ کی سرحد پر واقع کچے کے علاقہ میں سندھ اور پنجاب پولیس کا آپریشن کئی مہینوں سے جاری ہے۔ اغواء برائے تاوان عام واردات بن چکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امن دشمن عناصر پیدا ہی کیوں کئے جاتے ہیں؟ اِن دھڑوں کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں عمل میں نہیں لائی جارہی؟ فیکٹریاں باہر منتقل ہورہی ہیں، نوجوان بیرون ِ ملک سفر کررہے ہیں، خود حکمران، منصفین اور محافظ اپنے کاروبارو اور اہل و عیال باہر منتقل کرچکے ہیں یا کررہے ہیں۔ اِس ساری صورت حال میں پاکستان کا کیا قصور ہے؟ پاکستان کے غریب طبقات کا کیا قصور ہے؟ آٹے کی قطاروں میں دم توڑتے پاکستانیوں سے کس چیز کا انتقام لیا جا رہا ہے؟ ہوسِ اقتدار میں مبتلا حکمران تو یہ طے کرچکے ہیں کہ یہ ملک رہے نہ رہے اْن کی تجوریوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر مشرقی پاکستان الگ ہوا وہ ساری سچ ثابت ہوئیں اور وہ ترقی کرگیا۔ آج بلوچستان کے بہادر اور خیبر پختونخوا کے غیور پختونوں کی آوازیں آرہی ہیں، جنہیں پوری دلجمعی سے سننا ہوگا۔ صرف سننا ہی نہیں بلکہ اْن کے دکھوں کا مداوا کرنا ہوگا۔ غریب کو اْس کا حق دینا ہوگا۔ اِس ملک سے محبت کرنا ہوگی اور لوگوں کو غدار کہنے کی بجائے سب سے پہلے اپنا احتساب کرنا ہوگا۔ اِس ملک کو قائم رکھنا ہے تو اِس بار حکمران طبقات کو کڑواگھونٹ بھرنا ہوگا ورنہ یہ ملک اْن سے پہچان چھین لے گا۔