محترم استاد احمد جاوید کہتے ہیں کہ اگر کبھی یہ دیکھنا ہو کہ میرا اللہ سے تعلق کیا ہے تو اپنی دعا کے کنٹینٹ پر نظر ڈالو اور اس دعا میں اپنی کیفیت کے اتار چڑھاو کو دیکھو میں کیا چیزیں اللہ سے زیادہ مانگتا ہوں اور کیا مانگنے میں میرا دل زیادہ لگتا ہے۔آپ پر اپنی پوری حقیقت اور اللہ کے ساتھ تعلق کھل کے سامنے آجائے گاکہ میں نے ساری عمر کوئی ایسا سجدہ کیا ہے کہ جس نے مجھے مسجود کے قدم کا لمس فراہم کر دیا ہو میں نے ساری عمر اللہ کو اللہ سے مانگا ہے اس بے تابی کے ساتھ جس بے تابی کے ساتھ میں نوکری اور گھر مانگتا ہو۔اس پر میری ذاتی سوچ تو یہ ہے کہ اللہ سے گھر، گاڑی، نوکری ،اولاد حتی کہ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیز مانگنا بھی اللہ پر ایمان اور اس کی بندگی ہی کا اظہار ہے۔ دعا مانگنے والا وہی ہے جو اللہ تعالی کی قدرت پر یقین رکھتا ہے جبکہ کچھ لوگ یہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ جو چیز اللہ نے لکھ دی ہے اسے دعا کیسے ٹال سکتی ہیں۔یعنی تقدیر اور دعا کا جو معاملہ ہے یہ سوال ہر مسلمان کے ذہن میں پیدا ضرور ہوتا اور احمد جاوید کہتے ہیں کہ یہ وہ سوال ہے جسے ہر مذہب پہ گفتگو کرنے والے شخص کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ تقدیر کی اہمیت کتنی ہے۔تقدیر کا مطلب یہ کہ جو فیصلہ ہمارے لیے لکھ دیا گیا ہے وہی ہو کے رہے گا۔ تقدیر کے تمام فیصلے اٹل ہیں اور وہ پہلے سے ہو چکے ہیں۔یعنی اللہ نے اگر کسی کو غریب رکھنا ہے تو اس کی غربت دعا سے ختم نہیں ہوگی کسی کو بیمار رکھنا ہے جو بیماری اس کے لیے مقدر کرتی ہے اور اس ان فیصلوں کو بدلہ نہیں جا سکتا جبکہ دعا کا تو مطلب یہ ہے کہ یا اللہ میں اس صورتحال میں ہوں مجھے اس صورتحال سے نکال کے دوسری صورتحال میں پہنچا دیجیے اور دعا کرنے والے کے پیچھے ایک یقین کار فرما ہوتا ہے کہ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے اللہ ان کی دعا سنتا ہے اللہ محتاج کی پکار سنتا ہے اللہ ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ دعا کرنے والے کے ذہن میں ایک ایسا منظر نامہ ہے کہ چیزیں اور زندگی کے معاملات حالت انتظار میں ہیں کہ بندہ دعا کرے تو یہ فیصلہ اس کے حق میں ہو جائے یہ چیز اس کو مل جائے۔یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کے ہر لمحے کے بارے میں اللہ تبارک و تعالی نے پہلے سے ایک فیصلہ کر رکھا ہے جو اب کسی بھی ڈھب سے بدلہ نہیں جا سکتا۔اللہ نے جب فرما دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر حاوی ہے تواسکی رحمت سے معاملات بدل سکتے ہیں۔ احمد جاوید صاحب نے کیا خوبصورت بات کہی کہ دعا صرف مانگنے یا فرمائش کرنے کا عمل نہیں ہے۔ ذکر اور عبادت بھی ہے تو جو دعا سے عبادت اور ذکر کا مفاد حاصل نہیں کر سکتا اس کے مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ہم دعا کا عبادت سمجھنا یا مغز عبادت ہونے کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھتے۔ہماری دعا پریشانی سے شروع ہوتی ہے اور پریشانی پر ختم ہوتی ہے اس میں وہ سکینت اور طمانیت نایاب ہوتی ہے، اگر اسے ہم عبادت سمجھ کر انجام دیتے تو میسر آ جاتی۔اب دعا کے بارے میں ہم مولاعلیؓ کے فرمودات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دعا کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نہج البلاغہ میں تحریر ہے۔یاد رکھو جس کے ہاتھوں میں زمین اور آسمان کے تمام خزانے ہیں اس نے تم کو دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور قبولیت کی ضمانت دی ہے اور تمہیں مامور کیا ہے کہ تم سوال کرو تاکہ وہ عطا کرے اور تم طلب رحمت کرو، تاکہ تم پر رحم کرے۔اس نے تمہارے اور اپنے درمیان کوئی حجاب نہیں رکھا ہے اور نہ ہی کسی سفارش کرنے والے کا محتاج بنایا ہے۔ گناہ کرنے کی صورت میں توبہ سے بھی نہیں روکا اور عذاب میں جلدی بھی نہیں کی ہے اور توبہ کرنے پر طعنے بھی نہیں دیتا ہے تم اپنی حاجتیں اس کے حوالے کر سکتے ہو اسے اپنے حالات بتا سکتے ہو، اپنے رنج و غم کی شکایت کر سکتے ہو، اپنے حزن و ملال کے زوال کا مطالبہ کر سکتے ہو، اپنے امور میں مدد مانگ سکتے ہو، اور اس کے خزانہ رحمت سے اتنا سوال کرسکتے ہو جتنا کوئی دوسرا بہرحال نہیں دے سکتا چاہے وہ عمر میں اضافہ ہو یا بدن کی صحت یا رزق کی وسعت خبردار قبولیت کی تاخیر تمہیں مایوس نہ کرے ک عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہوا کرتا ہے اور کبھی کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیر کر دی جاتی ہے اس میں سائل کے اجر میں اضافہ اور امیدوار کے عطیہ میں زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کا سوال کرو اور وہ نہ ملے لیکن اس کے بعد جلد یا بدیر اس سے بہتر مل جائے یا اسے تمہاری بھلائی کے لیے روک دیا گیا ہو اس لیے کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو تم نے طلب کیا ہے وہ اگر مل جائے تو دین کی بربادی کا خطرہ ہے لہذا اس چیزکا سوال کروجس میں تمھارا حسن باقی رہے مال نہ باقی رہنے والا ہے اور نہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔طلب میں میں نرم رفتاری سے کام لو اور کسب معاش میں میانہ روی اختیار کرو بہت سی طلب انسان کو مال کی محرومی تک پہنچا دیتی ہے اور ہر طلب کرنے والا کامیاب بھی نہیں ہوتا نہ ہی ہر اعتدال سے کام لینے والا محروم ہوتا ہے خبردار خواہشات پر اعتماد نہ کرنا کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہیں اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو فرصت سے فائدہ اٹھاؤ قبل اس کے کہ رنج و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے۔اپنے دین و دنیا کو پروردگار کے حوالے کر دو اس سے دعا کرو کہ تمہارے حق میں دنیا و آخرت میں بہترین فیصلہ کرے۔" اس نے دعا کی اجازت دے کر گویا خزائن رحمت کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں کہ جب چاہو ان کنجیوں سے نعمت کے دروازے کھول سکتے ہو اور رحمت کی بارشوں کو برسا سکتے ہو ،" (س کالم کے لیے احمد جاوید صاحب کے لیکچر اور نہج البلاغہ سے مدد لی گئی)