پنجاب کابینہ نے گندم کی سرکاری خریداری کے لئے قیمت 3900 روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کر دی ہے۔گندم کے سرکاری نرخوں کا اعلان پیداواری لاگت میں اضافہ کے مسائل سے دوچار کسان تنظیموں اور رہنماوں نے حکومتی فیصلے کو مایوس کن قرار دیا ہے۔یہ مایوسی اس لحاظ سے بھی پائی جا رہی ہے کہ گزشتہ سال سرکاری نرخ 3900 روپے فی من ہی تھے جبکہ رواں برس جنوری میں قیمتوں کے تعین سے متعلق حکومتی اجلاس میں فی من گندم کے نرخ چار ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔کسان حلقوں کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سال میں کھاد، پانی،ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔بیج کی قیمتیں،ٹرانسپورٹیشن، مزدوری، ادویات اورکسان کی ضروریات سے متعلق لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔یہ اضافہ سرکاری نرخ مقرر کرتے ہوئے نظر انداز کیا گیا ہے۔پنجاب کی گندم خریداری کی پالیسی 2024-25کے تحت صوبائی کابینہ نے سال 2023-2024 کے لیے گندم کی کم از کم امدادی قیمت 3900 روپے فی 40 کلو گرام جس اجلاس میں مقرر اس کی صدارت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے خود کی۔زرعی شعبے کے حوالے سے وزیراعلیٰ مریم نواز نے چھوٹے کسانوں کے مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے کہا کہ کسان کارڈ کے تحت چھوٹے کسانوں کو بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات جیسے زرعی سامان کی خریداری کے لیے 1.5 لاکھ روپے بلاسود قرضے دیے جائیں گے۔ پنجاب کے بعد سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے صوبہ سندھ نے چودہ مارچ کو گندم کی امدادی قیمت 4000 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی ہے۔اس حوالے سے فیصلہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے پہلے اجلاس میں کیا گیا۔وزیر خوراک جام خان شورو نے کابینہ کو بتایا کہ محکمہ خوراک سندھ کے پاس 400,000 ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ خوراک نے غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ 900,000 ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا جائے۔حکومت بلوچستان نے ای سی سی کے فیصلے کے مطابق گندم کی قیمت 3900 روپے کے مقابلے میں 4300 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی ہے۔زرعی ماہرین کے مطابق توانائی کی زیادہ لاگت اور یوریا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس سال گندم کے پیداواری ہدف سے محروم ہونے کا امکان ہے۔کھاد کی صنعت میں اجارہ داری کی وجہ سے کسانوں کو یوریا حقیقی قیمت سے دگنی قیمت پر خریدنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے ۔اس موقع پر حکومت اپنا کردار ادا کرتی تو پیداواری لاگت کم رکھی جا سکتی تھی۔ حکومت کھاد قیمتوں میں ہیرا پھیری کے خلاف کارروائی نہیں کر سکی، نگراں حکومت نے کھاد بنانے والوں کے خلاف کیس کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیا جہاں سے ابھی تک فیصلہ نہیں آ سکا۔ان پٹ کی قیمتیں بلند سطح پر رہنے کی وجہ سے ملک میں رواں سیزن میں 29 ملین ٹن گندم پیدا ہونے کا امکان ہے جو کہ 32 ملین ٹن کے ہدف سے تین ملین ٹن کم ہے۔فوڈ سکیورٹی منسٹری کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں گرمی کی متوقع لہر سے گندم کی فصل کو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔سندھ کے بیشتر علاقوں میں گندم کی کٹائی 15 مارچ سے شروع ہوچکی ہے۔ پنجاب میں 22 ملین ٹن گندم پیدا ہونے کا امکان ہے، سندھ میں 4 ملین ٹن،خیبرپختونخوا میں 1.4 ملین ٹن اور بلوچستان میں 1.3 ملین ٹن گندم پیدا ہونے کا امکان ہے۔وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے مطابق یوریا کی نقل و حمل میں بدانتظامی اور موسمی اثرات نے خدشات کو جنم دیا ہے کہ رواں سال گندم کی پیداوار کا ہدف پورا نہیں ہو سکتا۔ مزید برآں، صوبے گندم کی مساوی قیمتیں مقرر کرنے پر آمادہ نہیں جو اجناس کی خریداری کی مہم میں چیلنجز کا باعث بنے گی۔ واضح رہے کہ صوبوں کی مشاورت سے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 20 دسمبر 2023 کو گندم کی فصل کے لیے 3,900 روپے فی 40 کلو گرام ‘‘منافع بخش’’ امدادی قیمت کی منظوری دی تھی۔اگرچہ گندم کی خریداری مہم شروع ہونے والی ہے تاہم فصل کی پیداوار، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ، موسم کی خرابی اور صوبوں کے درمیان قیمتوں کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے، خریداری مہم ہموار طریقے سے انجام پاتی دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان ایگریکلچر سٹوریج اینڈ سپلائیز کارپوریشن (پاسکو) سندھ سے 3,900 روپے سے زیادہ قیمت پر گندم نہیں خرید سکے گا۔اس کے نتیجے میں، صوبے کے عام کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا اور وہ مناسب منافع حاصل نہیں کر پائیں گے، فوڈ سکیورٹی کی وزارت نے کہا ہے کہ سندھ حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ امدادی قیمت 4,000 روپے مقرر کرنے کے اپنے یکطرفہ فیصلے پر نظرثانی کرے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں کے لوگ وافر اناج پیدا کرتے ہیں لیکن حکومتیں صرف اناج کی خریداری اور ذخیرہ کے امور تسلی بخش انداز میں انجام دینے میں ناکام رہتی ہیں۔چند سال پہلے اکتوبر نومبر میں امدادی قیمت مقرر کر دی جاتی تھی جس سے کسان پیداواری لاگت کو دیکھ کر فصل کاشت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر لیتا تھا۔اب حکومت رواں سال تین بار قیمتوں کے بارے میں فیصلہ کر چکی ہے جس سے مسائل کم نہیں ہو ئے۔بے شک کسان اسی فائدے کا مستحق ہے جو صنعتکار اپنے لئے جائز سمجھتا ہے،جہاں تک آٹے کی قیمت کم رکھنے کا معاملہ ہے تو اس کے لئے حکومت کسان کو پیداواری لاگت کم کرنے میں مدد دے۔