اسرائیل اورپاکستان دو ملک مذہب کے نام پر آگے پیچھے معرض وجودمیں آئے ۔ اسرائیل پوری ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سے اپنے مذہب پر قائم رہا اورپاکستان اپنے مذہب کی تعلیمات سے آہستہ آہستہ دُور ہوتاچلا گیا ۔پاکستان ستائیسویں رمضان لمبارک کو معرض وجود میںآیا جو ایک عجیب وغریب حُسن اتفاق تھاکیونکہ کسی بھی طرف سے اس کے لئے کسی بھی قسم کی تگ ودو نہیںکی گئی تھی۔ پاکستان بنتے ہی عید بھی آگئی جسے تائید ایزدی کا اظہار سمجھنا بے جانہ ہوگا ۔ پھرصرف پچیس برسوں میںپاکستان کیوںٹوٹ گیا؟ اسکا صحیح ترین اور واحدجواب تھا ’’کفران نعمت‘‘ ۔ جب اللہ کی عطاکی ہوئی نعمتوںپرشُکر ادا کرنے کی بجائے اُن کا کفران کیا جائے تو نعمتیں چھن جایا کرتی ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کو جو آزادی کی نعمت اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کوعطا کی تھی پاکستان کے مسلمانوںنے اس کی قدر نہیں کی۔سور ۃ قدرکی تلاو ت سے پتہ چلتاہے کہ اُس رات دو برکتوںکا نزول ہوا۔ ایک اُس ’’برکت کاجسے قرآن پاک سے تعبیر کیا جاتاہے جس کے لئے ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے‘‘۔ ’’ہم نے اُسے نازل کیا قدر کی رات میں ۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ قدر کی رات ہے کیا ۔یہ رات ہزارمہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ دوسرانزول یہ کہ ’’ اس میں فرشتے نازل ہوتے ہیںروح نازل ہوتی ہے جو اپنے رب کا حکم (امر) لیکر آتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجرتک سلامتی ہی سلامتی ہے‘‘ یہ حال اور مستقبل کا صیغہ ہے کیونکہ لیلیٰ لقدر آج بھی آتی ہے۔ یہ سورۃ پانچ آیات ،پینتیس الفاظ اورایک سو بارہ حروف پرمشتمل ہے۔ کیا اس رات کو دوچاندنکلتے ہیں ؟ کیایہ رات اور راتوںسے زیادہ لمبی ہو تی ہے؟ کیا اس رات کوتارے نہیںنکلتے ؟ پھر یہ رات کیوںمختلف ہے؟ آدمی کاجنم دن یا سالگرہ اُس کے لئے دوسرے دنوں سے کیوں مختلف ہوتاہے ؟ اسلئے کہ وہ اس کی پیدائش کا دن ہوتاہے۔ قرآن صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ عالمین کے لئے نازل ہوا ہے کیونکہ رب العالمین کے طرف سے رحمتؐ للعالمین پر نازل ہوا ہے وہ قلب مصطفیٰ ؐ کتنی عظمتوںوالا ہوگا جس پر قرآن نازل ہوا۔ تبھی تو ارشاد رب العزت ہے کہ ’’اگر یہ قرآن ہم کسی پہاڑ پرنازل کرتے تو تُو دیکھتا کہ وہ اس کے سامنے خشوع سے پیش آتا اور خوف خدا سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ‘‘ اس سورۃ مبارکہ کو اگر ق پر زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو قَدر منزلت والی رات بنتی اور اگر بغیر زبر کے ملاکر پڑھا جائے تو تقدیر والی رات بنتی ہے۔ دونوں صورتوں میں اس کی عظمتیں آشکارہ ہوتی ہیں۔ ہم جس دنیا میں آج جی رہے ہیں دنیا والوں کو چھوڑ خود مسلمانوں کے لئے دین کی وہ اہمیت نہیں رہی جس کا وہ تقاضا کرتاہے۔ شاید اس لئے کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یا تو دین کی ضرورت نہیںرہی یادنیا دین سے آگے بڑھ گئی ہے۔ دونو ں باتیں غلط ہیں کیونکہ دین قیامت تک لئے اتر ا ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ یہ کائنا ت ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں سورہ روم آیت 30میں اللہ فرماتا ہے ’’اپنا رُخ خالص دین کی طرف کرلو کہ وہی فطرت الہیٰ ہے کہ جس پر خدانے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ ’’اسلام دین فطرت ہے ‘‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ اپنے آخری تجزئیے میںشریعت محمدیؐ ایسی کسی بات یا عمل کاتقاضا نہیںکرتی جو آدمی کی فطرت کے خلاف ہو۔ ہر چیز بدل گئی ہے لیکن انسان نہیں بدلا ۔وہ پہلے بھی دیکھنے سننے اور چلنے پھرنے والا تھا اور آج بھی وہی ہے۔ پہلے بھی جاہل اور عالم تھا اور آج بھی ہے۔وہ پہلے بھی ظالم اور رحمدل تھا اور آج بھی ہے۔ اسی طرح آدمی کے مزاج اور طبعت میںجھوٹ سچ ،چوراچکا بدمعاش اور دیانتدار ہونے سمیت کسی بھی کیفیت میں انفرادی سطح پر اور ناہی اجتماعی سطح پر کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اسلام اس لئے دین فطر ت ہے کہ خالق کائنات نے ان سب باتوں کو مدنظر رکھ کر پوری انسانیت کی بھلائی اور نجات کے لئے احکامات نازل کئے ہیں۔ آدم ؑسے لے کر عیسیٰ ؑ تک آدمیت کی ضروریات کے مطابق وقتاً فوقتاً مختلف شریعتیں یعنی احکامات نازل ہوتے رہے لیکن قرآن قیامت تک کے لئے اتارا گیا تاکہ آدمیت کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لایا جاسکے ۔جھوٹ اور سچ کافرق واضح ہوسکے۔ حق کو باطل سے جدا کیا جاسکے ۔ صراط مستقیم کو گمراہیوں سے علیحدہ کرکے صاف صاف بتلایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے اس دعوے کا کہ ’’اس جیسی ایک آیت ہی بناکر لے آئو‘‘ آج تک جواب نہ دیا جاسکا۔ اسی لئے اللہ قرآن پاک میں اُن لوگوں کو خبردار کرتاہے ’’ جو لوگ چھپاتے ہیں اُن واضح نشانیوں اور ہدایت کی روشن دلیلوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں جبکہ ہم نے انھیں کتاب میںتمام لوگوں کے سامنے واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ تو ایسے لوگوں پر اللہ لعنت کرتاہے اور سب لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں‘‘ ( سورۃ بقرہ آیت 159) وہ کس قدر عظیم رحمان ورحیم ہے کہ اگلی ہی آیت یعنی 160میں پھر موقع دیتاہے ’’مگر جو لوگ توبہ کرلیں اور اصلاح احوال کرتے ہوئے جو کچھ چھپایا تھا اسے واضح طو رپر بیان کردیں تو ایسے لوگوں کی توبہ میںقبول کرتاہوں کہ میں بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں‘‘۔ جو لوگ دینی تعلیمات اور حقائق کو اپنے مذموم مفادات کیلئے انفرادی ،اجتماعی یا بین الااقوامی سطح پر توڑ مڑور کر پیش کرتے ہیں تاکہ مسلمان اپنے دین فطر ت کی عظمتوں سے آگاہ نہ رہ سکیں اور انھیں پس پشت ڈال کر اور بھول بھلاکر اپنے دین کا تحفظ کرنے کی بجائے اُن کے آلہ کار بن جائیں تووہی ایسی سرزنش کے قابل لوگ ہیں۔ یہ انہی باتوں کا نیتجہ ہے کہ ستاون مسلمان ملک اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ گذشتہ کئی ماہ سے جاری فلسطینیوں قتل عام روک سکنے کے قابل نہیں رہے ۔مسلمان خوش قسمت ہے کہ اللہ اسے بار بار پنی طر ف لوٹنے کا موقع فراہم کرتاہے ’’وہ اپنے بندو ں سے جلدراضی ہوجانے والا ہے‘‘۔ اللہ اپنے قرب کے لئے اسکی حمدوتسبیح کے علاوہ طواف کعبہ کے ذریعے، صفا اورمروہ میں سعی کے ذریعے ، شیطان کو کنکریاں مارنے کے ذریعے، نماز روزے زکواۃ خیرات اور صدقات کے ذریعے بار بار موقع فراہم کرتاہے تاکہ مسلمان اُس کی طرف پلٹ کرہر طرح کے خوف اور غم سے نجات حاصل کرسکے ۔ یہ سب باتیں اس نے شب قدر میںقرآن پاک نازل کرکے بتائی ہیں۔ پاکستانی وہ واحد قوم ہے جسے ان کا ملک پاکستان شب قدر میں دیا گیا۔ہمارے بدترین زوال کے باوجود دنیا اب بھی ہم سے اس لئے گبھراتی ہے کیونکہ ہم شب قدر کی پیدا وار ہیں ۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو ۔ آمین