وزیر اعظم نے خوشخبری سنائی ہے کہ حالات اور خراب ہونے والے ہیں اور آنے والے دنوں میں مہنگائی اور زیادہ بڑھے گی۔ ذھن تصوراتی ناخنوں سے خود کو کھرچ رہا ہے کہ حالات اور کتنے خراب ہوں گے اور مہنگائی کے زور میں اور کیا کسر رہ گئی ہے۔ وزیر اعظم صاحب اسلوب ہیں‘شاعری کی ایک کاری گری کا جو ’’صنعت تضاد‘‘ کے نام سے جان جاتی ہے‘استعمال کرتے ہیں۔ تین چار چار روز پہلے کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ان کے الفاظ یہ تھے کہ مہنگائی آنے والے دنوں میں کم ہونا شروع ہو جائے گی اور اچھے دن آنے والے ہیں۔ ان کے اسلوب کا سلیس اردو ترجمہ وہی ہے جو شروع کی سطروں میں کیا گیا۔ سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.5فیصد ہو گئی۔ یہ ادارہ اعداد و شمار کو آدھا کم کر کے دکھانے میں مہارت رکھتا ہے۔ حساس پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) نے اسی روز جو خبر جاری کی‘ اس کے مطابق مہنگائی کی شرح مارچ کے آخری روز بڑھ کر 18.7فیصد ہو گئی تھی یعنی ذرا سی کمی کے ساتھ 19فیصد۔ مجموعی طور پر قیمتوں میں اڑھائی برس کے دوران دوگنا یعنی سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی اضافے کی ’’تصدیق‘‘ دو ماہ پہلے وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ میں یہ کہہ کر کی تھی کہ مہنگائی کی شرح کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ صاحب اسلوب جو ٹھہرے۔ ٭٭٭٭ پٹرول کی مار دھاڑ میں اربوں کھربوں کی ’’ایمانداری‘‘ کمانے والے ندیم بابر فارغ ہو گئے۔ ان کی جگہ جو صاحب آئے ہیں‘ وہ بھی کیا گل کھلائیں گے‘ ایک اشارہ تو انہوں نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں دے دیا۔ فرماتے ہیں‘ بجلی کا سرکلر ڈیٹ بہت بڑھ گیا‘اسے کم کرنے کے لئے کم سے کم پانچ روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنا پڑے گی۔کم سے کم پانچ روپے کی بات مہمل ہے‘ وزیر اعظم نو روپے یونٹ بڑھانے کا ارادہ فرما چکے ہیں۔خیر‘نکتے کی بات اس سے الگ ہے۔ سابق دور میں بجلی کا یونٹ گیارہ روپے تھا او گردشی قرضہ گیارہ سو ارب روپے۔ خاں صاحب بجلی کا نرخ 25روپے یونٹ پر لے گئے اور خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گردشی قرضے کی مالیت 25سو ارب روپے ہو چکی ہے۔ پانچ روپے بڑھانے سے نرخ 30روپے ہو جائے گا تو گردشی قرضہ بھی 30سو ارب ہو جائے گا۔فارمولا تو یہی بنتا ہے کوئی اور ہے تو بتلا دیجیے۔ ٭٭٭٭ خبر ہے کہ وزارت ریلوے نے ٹکٹوں پر بھاشا ڈیم فنڈ کا جو سرچارج لگایا تھا‘اس کی رقم اس نے ڈیم فنڈ میں جمع نہیں کرائی۔یہ رقم کتنی تھی‘خبر میں نہیں بتایا گیا لیکن ظاہر ہے کہ بہت بھاری رقم ہوگی۔ آخر ہر مسافر سے ’’رضا کارانہ‘‘ وصولی کی گئی تھی اور اب یہ رقم کہاں ہے‘خبر میں یہ بھی نہیں ہے۔بہرحال کوئی شک شبہ مت کیجیے‘ صاحب ایماندار آدمی ہیں۔ ان کی ایمانداری کا گواہ اور ان کا ایکڑوں پر محیط ان کا گھر اس سے بھی بڑھ کر گواہ۔وہ ویسے بھلکڑ ہیں۔ ادھر ادھر رکھ کر بھول گئے ہوں گے۔ڈیم والے چاچا جی کی یاد آئی۔ فرمایا کرتے تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جھونپڑی بنا کر ڈیم فنڈ کی رکھوالی کروں گا۔خیر سے وہ خود بھی لاپتہ ہیں‘ جھونپڑی بھی‘ڈیم فنڈ بھی اور رہا ڈیم تو اس کا ترانہ’’ڈیم بنے گا وقت سے پہلے‘‘ بھی عرصے سے سنائی نہیں دیا۔ ٭٭٭٭ عالمی بنک نے حکومت کی کارکردگی کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ایف بی آر کے پانچ چیئرمین اور خزانے کے تین وزیر بدلنے کے باوجود اہداف حاصل نہیں کر سکے۔بنک نے پاکستان کی معاشی صورتحال کو ’’نازک‘‘ قرار دیا ہے اور خوشخبری سنائی ہے کہ غربت مزید بڑھے گی۔(جبکہ حقائق یہ ہیں کہ اس ماہ ایف بی آر نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے ریکارڈ ٹیکس جمع کیے ہیں ) نازک یا نازک اندام معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے حفیظ شیخ کی بھی چھٹی کر دی گئی اور اب ایک نسبتاً نوجوان حماد اظہر کو وزارت دے دی گئی ہے۔ حماد اظہر موصوف عمر میں نوجوان لیکن فنی مہارت میں( میاں جی کے منشی سمدھی ڈار جو ان دنوں لندن میں خودساختہ جلاوطن ہیں ،)سے بڑھ کر ہیں ۔(واپسی پر منشی صاحب کو سارا حساب دینا ہو گا ،ویسے واپسی پر زیر عتاب بھی ہوں گے ۔)بزرگ باراں دیدہ نے حالیہ بحران میں خوب ہاتھ دکھائے تھے اور اپنی مہارت کا مظاہرہ کر کے داد پائی۔ خان صاحب کو شاید پورا اعتماد ان پر نہیں ہے اس لئے ان پر ایک نگران بھی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔خزانے کے امور کی دیکھ بھال ایک کمیٹی کرے گی۔جس کے کنوینر شوکت ترین ہوں گے جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ عہدہ سنبھالنے کی تصدیق کرتے ہوئے متوقع کنوینر شوکت ترین نے بھی خاں صاحب کی حکومت کو خراج تحسین پیش کیا ہے، جو عالمی بنک کے خراج تحسین سے دو ہاتھ آگے تھے۔ فرمایا ’’سوا تیرہ فیصد پر شرح سود اور 165روپے کا ڈالر ہونے سے معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا تھا۔(یاد رہے اب ڈالر بھی ریوس ہو چکا ہے153روپے کا ہے ،جس کے ساتھ ہی بیرونی قرضوں میں اربوں روپے کمی واقع ہوئی ہے ۔) پھر بجلی گیس پٹرول سب کی قیمتیں بڑھا کر ڈیمانڈ ہی بٹھا دی اور مہنگائی اور بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ معیشت کی سمت کا پتہ نہیں۔ معیشت بیٹھنے سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا۔عہدہ سنبھالنے سے پہلے کا یعنی پیشگی شکریہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ خراج تحسین کیا ہے‘سہل ممتنع میں لکھی گئی مختصر غزل ہے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ خراج تحسین کا حق ادا کرنے کے لئے سہ غزلہ بلکہ ’’شاہنامے‘‘ کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭ ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب ہو گا۔ دیکھیے‘اس بار بھی’’دھند‘‘ پڑتی ہے۔ پچھلی بار سردیاں تھیں اس لئے دھند بھی ٹھنڈی یخ تھی۔ اس مرتبہ پڑی تو گرم دھند پڑے گی۔گرم دھند ہاتھ بھی جلا سکتی ہے‘حکومت کو پتہ تو ہو گا۔