کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس ملک کا رُخ دستورکی طرف موڑ دیا جائے؟کیا اب بھی ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر اس ملک میں اسلام کے نظام کی بات کی گئی تو امریکا اوریورپ ناراض ہو جائیں گے؟ہمارا آئین ہماری ریاست کی بقا کا ضامن ہے۔ استعماری قوتوں کے غلبے کے نتیجے میں اسلامی دنیا ایک عمومی خوف اور مایوسی سے دو چار ہوچکی ہے ۔بے شک ہمیں اﷲ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے اوران کاموں سے بچنا چاہیے، جن سے کسی قوم پر اﷲ کے عذاب کا فیصلہ مسلط ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ عذاب الٰہی صرف ان لوگوں کا مقدر بنتا ہے جو اﷲ کی رحمت سے نا امید ہوتے اور شیطان کا غلام بننے کو مقصد حیات بنا لیتے ہیں ۔ امت نے بحیثیت مجموعی تو خوف اورمایوسی کو مذہب نہیں بنایا ۔اس امت کو اجتماعی عذاب سے محفوظ رکھنے کا وعدہ ہے اس لیے کہ اس میں اہل خیر کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ وہ لوگ عذاب الٰہی کا نشانہ کیسے بن سکتے ہیں جو آزمائشں کے طوفانوں میں بھی ثابت قدم رہے ۔اس امت میں وہ لاکھوں ارباب عزیمت آج بھی موجود ہیں جو گزشتہ عرصے میں دوشیطانی طاقتوں کے خوف ناک استحصال کے سامنے بھی سر نگوں نہیں ہوئے ۔عذاب الٰہی تو اس وقت آئے گا جب خدا نخواستہ ساری دنیا کے مسلمان باطل کے فال و فر کو دیکھ کر خوف،پست ہمتی اورمایوسی کا شکار ہوکر وقت کے دجالوں کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے ۔ اگر مسلمان اجتماعی طور پر حق کو ترک کر دیتے،تو یقیناوہ عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہوتے،لیکن ابھی تو اہل حق ظالم اور جابر کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں ہوئے،لہٰذا امت اجتماعی عذاب میں مبتلا نہیں ہوسکتی۔ موجودہ صورت حال میں امت مسلمہ ایک زبردست امتحان میں مبتلا کی گئی ہے ۔وہی کیفیت ہے کہ جہاں قرآن مجید کہتا ہے … ’’ وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ وقت کا پیغمبر بھی کہہ بیٹھا کہ کب آئے گی اﷲ کی نصرت؟‘‘ اس پر اﷲ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی اور کہا ’’ آگاہ رہو اﷲ کی مدد قریب ہے ۔‘‘ پھر دنیا نے دیکھا کہ ان پر سے وہ سخت امتحان ٹل گیا ۔اﷲ کی نصرت نے ساتھ دیا اور حق پرست کامیاب و کامران ہو گئے ۔افغانستان اور عراق کی مثال ہمیں حوصلہ دیتی ہے ‘وہاں کون سی قیامت تھی جو مسلمانوں پر نہ توڑی گئی ‘ مگر کیا وہ باطل کے سامنے سر نگوں ہوئے ؟ گزشتہ تین دہائیوں سے افغانستان نے دنیا کی دو بڑی استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کی روشن مثال قائم کی ہے ۔ اسی طرح عراق پندرہ برس سے امریکی استعمار کے مظالم کا شکار ہونے کے باوجود سر بکف اور سر بلند ہے ۔افغان روسی اور امریکی استعمار کے غرور کو خاک میں ملا چکے ہیں اورعراقی امریکی استعمار کو ناکوں چنے چبوا چکے ہیں ۔امریکہ اپنی پوری طاقت استعمال کر کے بھی افغانیوں کو اپنا غلام بنا سکا نہ عراقیوں کا سر جھکا سکا ۔یوں کہنے کو وہ بار بار کہہ رہا ہے کہ ہم نے ان ملکوں کی کمر توڑ ڈالی گئی ہے‘جیسے بھارت دعوے کرتا ہے ‘کشمیریوں کی جدو جہد کمزور پڑ گئی ہے۔ لیکن کیاحقائق اس کی تصدیق کر تے ہیں؟امتحان بلا شبہ بہت سخت ہے ‘مگر اﷲ نے امتحان سے سرخرو ہو کر نکلنے کی توفیق بھی عطا کر رکھی ہے، تا ہم یہ صورت حال ان مسلمانوں کے لیے بھی چیلنج ہے جو بے بسی سے حالات کے دھارے پر بے جان تنکوں کی طرح بہہ رہے ہیں ۔ آج ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ اس کائنات میں جہاں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا لہو بہایاجاتا اور مظلوم مسلمان مسلسل ظلم و جبر کا شکار بنائے جا رہے ہیں ‘ تو تم کیسے مسلمان ہو کہ جو اطمینان کی نیند سوتے اور زندگی کی عیش و مسرت سے لطف اندوز ہوتے ہو ۔اہل ایمان کے لیے یہ بات قطعی نا ممکن ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائیں ۔ان کے سامنے اﷲ کے سچے بندوں کے سر کٹتے ہوں اور وہ خامو ش تماشائی بنے ہوئے ہوں ۔اﷲ کے دین سے مذاق ہوتا ہو اور انہیںایک آنسو بہانے کی توفیق نہ ہو۔ وہ لوگ جنہوں نے نائن الیون کے بعد شیطان کے سامنے سجدہ ریز ہونے میں دیر نہیں لگائی ‘ آج خوش نما نعروں کے پردے میں اپنا نفاق چھپا رہے ہیں ۔ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اعتدال پسند ‘ جمہوریت پسند اور اسلام دوست ہیں ۔انہیں خانہ کعبہ کے اندر نوافل ادا کرنے پربڑا فخر ہے ،لیکن دوسری طرف وہ عورتوں کو نیکر پہنا نے کی وکالت بھی کرتے رہے ۔ وہ اپنے غیر ملکی آقائوں کے حکم پر اس ملک میں کفر و نفاق اور سیکولرازم کا بیج بونا چاہتے تھے ‘ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ دینی مدارس کے اندر جہل اور بے دینی کو فروغ دیں ۔علمائے سو کو خریدیں ‘ عو رتوں کے سروں سے پردے نوچیں اور نظام تعلیم کواسلام دشمن اداروں کے پاس گروی رکھ دیں ۔کیا ایسے ماحول اور ایسے حالات میں خاموش بیٹھنا پرلے درجے کی مداہنت اور منافقت نہیں؟ ہر مسلمان اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ وہ اپنے دعویٰء اسلام میں کتنا سچا ہے؟ کیاوہ کفر کی طاقتوں کے غلبے پر مضطرب اور غم زدہ ہے…کیا اسے دنیا بھر میں مسلمانوں کے دکھ اور مصیبتیں بے چین رکھتی ہیں ؟کیااس نے حق وباطل کے اس فیصلہ کن معرکے میں اپنا زور حق کے پلڑے میں ڈال رکھا ہے ؟اگر ایسا نہیں تو پھراسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔اب بھی وقت ہے ہم اپنے دستور کو اس کی روح کے ساتھ نافذ کرلیں۔