خلیج کے دو بڑے کھلاڑیوں نے آخر کار بقائے باہمی کے اصول پر اتفاق کر لیا ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی نے پوری مسلم دنیا کو تقسیم کر رکھا تھا۔فکری تقسیم معاشی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کا وہ حصہ جو پسماندہ اور افلاس زدہ ہے وہ اپنے ان بھائیوں سے مدد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جو وسائل سے مالا مال ہیں۔پچاس سال پہلے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والے ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلاف کیوں ہوا‘ اس اختلاف نے خطے اور مسلم دنیا پر کیا اثرات مرتب کئے یہ تاریخ کا حصہ ہے۔قابل تحسین حقیقت یہ ہے کہ دونوں نے اب آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔دونوں برادر مسلم ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لئے کردار ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین نے ادا کیا ہے۔گویا اس بات کا نقشہ تصور میں موجود رہنا چاہیے کہ چین بطور ضامن فعال رہے گا۔ چین اپنے بین الاقوامی کردار اور فیصلوں کو معاشی منافع کی صورت دیتا ہے۔یہ اس کی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ ہے۔بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ پاکستان اور نیپال میں چین نے ترقیاتی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے میں جو مدد دی ہے۔ اس کا ایک بڑا تزویراتی ڈیزائن چین کے پاس ہے۔وہ ایک خاص وقت کے لئے خود کو تیار کر رہا ہے۔اس کے پیش نظر امریکہ کی حکمت عملی ہے کہ اس نے کینیڈا کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھے جبکہ لاطینی امریکہ کے ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائے رکھیں۔چین اپنے کسی ہمسائے کے ساتھ تعلقات کشیدہ نہیں رکھنا چاہتا۔حتیٰ کہ بھارت کے ساتھ اس کی دو طرفہ تجارت سالانہ 100ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔سعودی عرب اور ایران کے پاس توانائی کے وسیع ذخائر ہیں۔ چین سعودی عرب کے ساتھ مل کر دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے نئے منصوبے شروع کر سکتا ہے۔یہ منصوبے چینی اثرورسوخ اور سعودی منافع میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ایران جو پابندیوں کے باعث کئی شعبوں میں آگے نہیں بڑھ سکا اسے سعودیہ کے ساتھ تعلقات کا نیا دور آکسیجن کی طرح محسوس ہو گا۔ مغرب نے ایران کو ہمیشہ ایک دشمن کی طرح دیکھا۔ایران کا جوہری پروگرام‘ ایران کی بیرونی تجارت‘ ایران کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اور تنازعات کو مغربی پریس نمایاں کرتا رہا ہے۔دوسری طرف سعودی عرب کو یہ کہا جاتا رہا کہ ایران مسلکی بنیادوں پر اس کا مخالف ہے۔یمن‘ لبنان‘ بحرین اور دیگر ریاستوں میں ایرانی اثرورسوخ کو ایک فوجی خطرے میں تبدیل کر کے دکھایا جاتا رہا ہے۔چین کی ثالثی میں ایران سعودیہ ڈیل سارے خطے میں طاقت کی ایک نئی شکل اور نیا توازن متعارف کرا سکتی ہے۔ یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس اپنی رپورٹ میں ایران سعودیہ ڈیل کو خطے میں چین کے داخلے سے تعبیر کرتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس معاہدے سے دنیا میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔انسٹی ٹیوٹ اپنی رپورٹ میں باہمی تنازعات کے ماضی کی مثال دیتے ہوئے مستقبل میں دونوں برادر مسلم ممالک کے تعلقات پر شکوک ابھارنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ بدلتی دنیا میں ہر کوئی بقائے باہمی کے اصول سے رجوع کر رہا ہے۔ ’’فارن پالیسی‘‘ نے ایران سعودیہ ڈیل کے جنوبی ایشیا پر اثرات کے حوالے سے مائیکل کوگلمین کا مضمون شائع کیا ہے۔مضمون نگار کہتے ہیں کہ اس ڈیل نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کا نیا دروازہ کھولا ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں کی خواہش ہے کہ ایران سعودیہ ڈیل کامیاب ہو۔اس خواہش کے پس پردہ یہ مفاد ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات نمٹانے کے لئے زیادہ گنجائش مل سکے گی۔خاص طور پر ان کے باہمی تجارتی تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ بلا شبہ سعودی عرب پاکستان کا سب سے قریبی دوست اور خیر خواہ ہے۔سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دفاعی اور اقتصادی تعلقات شاندار رہے ہیں۔ان تعلقات کی نوعیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں آئی ایم ایف نے قرض کی نئی قسط جاری کرنے سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان کے متعلق کچھ ضمانتیں طلب کی ہیں۔پاکستان کے لئے صورت حال بڑی سازگار ہو رہی ہے۔وہ ایران کا ہمسایہ ہے‘ سعودی عرب کا شراکت دار ہے اور چین کا کلیدی اتحادی۔ اس کے برادر‘ دوست اور اتحادی ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہونے سے اس کی سفارتی اور معاشی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔اپریل 2019ء میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ایرانی قیادت کے ساتھ ملاقات میں سعودی عرب سے متعلق پالیسی پر بات کی تھی۔اب یہ تعلقات چین کی ثالثی میں بہتر ہو رہے ہیں۔ایران سعودیہ ڈیل میں دونوں برادر مسلم ممالک نے اتفاق کیا کہوہ اپنے سفارتی تعلقات بحال کریں گے۔ان کے سفارتی تعلقات کی بحالی پاکستان کے لئے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے۔قبل ازیں پاکستان ان دونوں کے تنازع میں نیوٹرل رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھا تاہم ایران سمجھتا رہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی طرف جھکائو رکھتا ہے۔ پاکستان کے عوام ایران اور سعودی عب کے مابین تعلقات کی بحالی پر خوش ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مسلم دنیا متحد ہو گی۔خطے کی اقتصادی ترقی کو نئی سمت ملے گی۔ پاکستان کو توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے زیادہ سستے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔سرحدی گڑ بڑ کے واقعات کم ہو سکتے ہیں‘ فرقہ واریت کا شکنجہ ٹوٹ سکتا ہے۔ ایران سعودیہ معاہدہ پاکستان کے بہت سے مسائل میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس باصلاحیت افرادی قوت ہے۔خطے میں نئی سرمایہ کاری اور تعمیرات کے منصوبے شروع ہونے سے یہ افرادی قوت بہتر روزگار حاصل کر سکتی ہے۔ایران سعودیہ سفارتی تعلقات کی بحالی گو ابتدا ہے لیکن اس معاہدے کے بعد جس بڑے پیمانے پر مسلم دنیا اور ایشیا میں اس کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ کسی موڑ پر پاکستان اپنی نئی خارجہ پالیسی کو بروئے کار لا کر تنازع کشمیر کے حل کا انتظام کر سکتا ہے۔