عالمی مبصرین کا ماننا ہے کہ غزہ کی سرزمین سے ’مسلمانوں‘ کا وجود مٹایا جارہا ہے۔ مسجد ِ اقصیٰ کے نیچے بارودی سرنگیں بچھادی گئی ہیں۔ کسی بھی وقت مسجد ِ اقصیٰ کو منہدم کرنے کا سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔ سرزمین ِ فلسطین سے مسلمانوں کو ملیامیٹ کرکے اْس آخری خطرے سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جارہا ہے کہ کہیں فلسطین کے مسلمان غضبناک ہو کر یروشلم یا صہیونی ریاست پہ حملہ آور نہ ہوجائیں۔ مسجد ِ اقصیٰ کے قریب بھاری بھرکم تراشے ہوئے پتھر رکھے جاچکے ہیں جن سے ’ہیکل ِ سلیمانی‘ کی تعمیر کی بنیاد اْٹھائی جائے گی۔ عالمی تناظر اس شک کو تقویت دے رہا ہے کہ عنقریب ہم ایشیامیں ایک اور جنگ کا سامنا کریں گے جو دو سگے بھائیوں کے درمیان لڑی جائے گی۔اْس جنگ کے بعد دونوں بھائیوں کی بدن چھلنی ہوجائے گا۔ بھوک،افلاس، دہشت گردی اور شر انگیزی کا فسانہ نئے انداز سے لکھا جائے گا۔ اِس جنگ کا مقصد دو بھائیوں کو لڑا کر اْس علاقہ کو تباہی سے ہمکنار کرنا ہوگا جس کی مٹی سے وہ طوفان برپا ہوگا۔ وہ علاقہ جہاں سے ایک عظیم الشان لشکر برآمد ہونے کی نوید ہے جس کی طمطرا ق سے صہیونیت پہ سکتہِ قلب طاری ہوجائے گا۔ جس کے گھوڑوں کے ٹاپوں سے پیدا ہونے والی تھرتھراہٹ سے ’ایلیاکی زمین تھرا جائے گی۔اْس خطرے سے چھٹکارا پانے کیلئے عنقریب دو ’سگے بھائیوں‘ کے سر پہ جنگ کا خطرہ منڈلارہا ہے۔ وقت کی رفتار روک کر دیکھئے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین نے ثالثی کا کردار ادا کیا اور دوناراض بھائیوں میں صلح ہوگئی۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بھائی چارے کی فضاکو ہموار کرنے کیلئے چین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ چین ہر دو حوالوں سے عالمی منظر نامہ پہ ایک کھلاڑی بن کر سامنے آرہا تھا۔اسی دوران واشنگٹن میں کئی اہم ایشیائی شخصیات کے دورے ہوتے ہیں۔ امریکہ کی کئی اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا دور چلتا ہے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ رْکتا ہے تو ساتھ ہی صہیونی ریاست غزہ پہ دھاوا بول دیتی ہے۔ اگلے ہی لمحے امریکی حکومت عوامی حمایت کے بنا صہیونی ریاست کے پیچھے کھڑا ہونے کا اعلان کردیتی ہے۔امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مصر، سعودی عرب، اردن اور دیگر مسلم ممالک کے ہنگامی دورے کرتے ہیں۔ بعد ازاں امریکی صدر صہیونی ریاست کے متنازعہ دارالحکومت میں اْترتے ہیں اور صہیونیت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ اِس دوران کسی بھی مسلمان ملک کو صہیونی ریاست کو عملی طور پر دھمکی دینے کی ہمت نہیں ہوتی بلکہ سبھی محض بیان بازی تک محدود رہتے ہیں۔ اِس موڑ پہ صہیونیت کو محسوس ہوتا ہے اگر مسجد اقصیٰ گرادی گئی تب جس مسلمان ملک سے شدید ردِ عمل آسکتا ہے وہ پاکستان ہے۔ یوں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانے لگاہے۔ معاشی حالت کا اندازہ لگا کر ’عالمی مالیاتی اداروں‘ نے وطن ِ عزیز کی معیشت کو سہا را دینے کی حامی بھرلی ہے۔یہ عالمی امداد خیر کا سامان نہیں بنے گی۔ یہ ہم سے ایک بار پھر قربانی مانگے گی جس کی ابتداکردی گئی ہے۔ اِس شک میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ جذبہ ِ خیر سگالی ہے۔ بلاشبہ یہ قربانی ہمیں مہنگی پڑے گی۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں جلد بدترین دشمن سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھانا پڑیں۔ایسا کرنے کے لئے ہمیں کہا جائے گا اور پھر ہمیں میڈیا پہ ’امن و محبت اور بھائی چارے کی فضائ￿ قائم کرنی پڑے‘گی۔ ہوسکتا ہے کہ ’آزاد تجارت‘ کا خواب دکھا کر ہمیں اپنے بدترین دشمن سے باہیں پھیلا کر گلے ملنا پڑے۔یہ گلے ملنا بھی ہمارے لئے خیر کا سبب نہ ہوگا۔اگر ایسا ہوا تو ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہوگی کہ ہم اپنے آئینی اداروں اور اْن میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کو کونسا نظریہ بیچیں گے؟ اْنہیں کیسے یقین دلائیں گے کہ ہم دہائیوں کی دشمنی کو محبت میں بدلنے جارہے ہیں۔ ذراسوچئے کہ ہم اِس لڑائی میں کیوں کودنا چاہ رہے ہیں؟ ہمیں بیٹھ کر پہلے یہ طے کرنا ہوگا اگر دوبارہ پرائی لڑائی میں کودے تو سنگین تنائج کا ذمہ دار کون ہوگا؟ نتائج ہمارے خدشات سے بڑھ کر خطر ناک ہوئے تو ذمہ داری کا طوق کس کے گلے میں لٹکایا جائے گا؟کیا سنگین نتائج کے بعد ہم اِس قابل ہونگے کہ خود کو سنبھال سکیں؟ اگر ہم اِس قابل نہ ہوئے تو ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ ہمارے جسم کے دو حصے پہلے ہی شدید زخمی ہیں۔ ایک حصہ بار بار زخمی ہونے کی بدولت مزید شدتِ درد برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ دوسرا ہیجان انگیزی جبکہ تیسراتیز ’بخار‘ میں مبتلا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ایک بیمارو لاغر جسم کے ساتھ ایک اور پرائی لڑائی میں بنا سوچے سمجھے کود جائیں؟ ہمیں پہلے تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ لڑائی معمولی نہیں ہوگی۔ اِس لڑائی کا دائرہ ِ کار بڑھے گا۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ دو بھائیوں کو لڑا کر صہیونی ریاست اْس عظیم جنگ کا آغاز کرنے لگی ہے جس کے متعلق ’ٹرمپیٹ‘ اخبار نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ ’سب سے بڑی جنگ ہوگی‘۔ اِبن ماجہ نے بھی اِسی جنگ کے متعلق بتایا ہے کہ ’یہ سب سے عظیم جنگ ہوگی‘۔ ڈاکٹر اسرار صاحب نے مستند روایت بیان کرتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ اس جنگ میں ’اِتنے انسان مریں گے کہ ایک پرندہ اْڑتا چلا جائے گا مگرنیچے اترنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ بالاآخر وہ تھک ہار کر گرپڑے گا۔مگر جب گرے گا تو انسانی نعش پر ہی گرے گا‘۔اِس لئے ہمیں ہر قدم اْٹھانے سے پہلے قومی اور بین الاقوامی حالات کا بغور جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ایک طرف صہیونی ریاست نے مسلمانانِ عرب کو چاروں طرف سے گھیررکھا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی واحد ایٹمی طاقت کو معاشی شکنجے میں جکڑنے کے درپے ہے۔ ساتھ ہی وہ چاہتی ہے کہ ہم اپنے ہی بھائیوں سے نئے سرے سے لڑائی شروع کردیں۔ یعنی ہر دوصورتوں میں ہمارا ہی نقصان ہو۔یا ہم خود کٹ مریں یا اپنے بھائی کو ماردیں۔ آخر کیوں؟ یہ کسی بھی طرح سے مناسب نہ ہوگا۔ اِس لڑائی کے سنگین اور بدترین نتائج برآمد ہونگے۔ اِس لئے ہمیں احتیاط کرنی چاہئے۔ پھونک پھونک کر قدم اْٹھانا چاہئے کیونکہ جو ہمیں راستہ دکھا رہا ہے اْس نے پہلے ہی راستے پہ بارودی سرنگیں بچھارکھی ہیں۔ اْن بارودی سرنگوں سے ہمارا صرف پاؤں نہیں بلکہ ہمارا وجود خطرے میں ہے۔