میں یہاں سے وہاں تک ان محروم نادار اور مفلس لوگوں سے ملا۔کراچی کی ان بستیوں میں جہاں دکھوں کا ایک سمندر موجزن ہے۔ملتان‘ لاہور کی ان بستیوں میں جہاں جہاں مختلف زبان بولنے والوں کی خاموش اکثریت صرف سیاسی طور پر زندہ تصور کی جاتی ہے۔سماجی طور پر یہ مردہ بستیاں ہیں راولپنڈی سے پشاور تک ایسی آبادیاں ہیں جو سماجی اور معاشی طور پر سسک رہی ہیں صرف اس کا ووٹرز ہی ان کی پہچان ہیں۔کوئٹہ سے روجھان جمالی تک ایسے خاموش اور بے بس علاقے جن میں رہنے والے وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف سفر کر رہے ہیں جن کا مستقبل پہلے سے زیادہ تاریک ہو گیا ہے۔ ان بستیوں میں رہنے والے لوگ مجھے خلا میں معلق نظر آئے یہ اپنے ہی علاقوں اور وطن میں بیگانے ہو گئے ہیں سچ پوچھیں تو یہ بستیاں غربت پسماندگی جہالت اور حالات کے جبر کی شرمناک‘ تصویریں پیش کر رہی تھیں ایک غیر ملکی جریدے کے لئے مضمون لکھنے کے اسائنمنٹ نے مجھے یہ سب کچھ بہت قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا تھا۔پاکستان کی تاریخ کے جمہوری اور آمرانہ ادوار میں انہیں مسلسل یہ زخم کھانے پڑے ہیں۔سیاستدانوں اور حکمرانوں نے انہیں ووٹوں کا بنک سمجھ کر لوٹا ہے۔میں نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ بے سمت سیاست کی روایات کے تحت ان بدنصیب علاقوں کے اندر سے متعدد سماجی اور سیاسی گروہ پیدا ہو گئے جنہوں نے حکومت اور ان علاقوں کے درمیان آلہ کار اور ایجنٹ بن کر ان کے مفادات کا سودا کیا۔اس طرح یہ لوگ یہ طرف غربت بیماری بے روزگاری اور ناخواندگی کا زہر پھانکتے رہے تو دوسری طرف ان علاقوں کے اپنے منتخب کردہ ارکان تعلق رکھنے والے وزراء سماجی سیاسی کارکن کونسلرز اور ان کا مقدر بدلنے کے بااختیار دعویدار لوگوں نے بے حسی ،بے ضمیری اور مفاد پرستی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں مختص کروڑوں روپے کے فنڈز کا غبن ہوا، کنگلے مالدار بن گئے۔ زمینوں پر قبضے کئے گئے ، منشیات کا زہر پھیلا کر کروڑوں کمائے گئے، کہیں اسلحہ اور دیگر ناجائز کاموں سے بے انداز دولت اور طاقت حاصل کر لی گئی۔جب بھی الیکشن کا دور آتا ہے جیسے اب آ گیا ہے تواپنے وجود کو مایوسیوں میں لپیٹے یہ بستیاں پھر سے زندہ ہوتی نظر آ رہی ہیں۔میں نے وعدوں اور دعوئوں کے شور میں ان بستیوں کو ان آبادیوں کو بڑے سستے داموں بکتے دیکھا ہے۔یہ بھی تاریخ کا سبق ہے کہ جو لوگ فکری سطح پر لنگڑے لولے ہوتے ہیں ان پر وقت کبھی نہیں بدلا کرتا راکھ سو برس بعد راکھ ہی رہتی ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ اگر بھوسے میں چھپی چنگاریاں بروقت نہ بجھائی جائیں تو پورا گائوں جل کر راکھ ہو جاتا ہے یہ سارے مناظر دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ ہم اپنی آزادی کے 75سال بعد جب پلاٹینم جوبلی منا چکے ،کہاں کھڑے ہیں ۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں صدیوں کے جامد پانی کی کائی پر کھڑا ہوں۔میرے آگے پیچھے تعفن کے ڈھیر لگے ہیں اور سٹراند میرے دماغ کے سارے مثبت خیالات چاٹ چکی ہے۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم سب جھوٹ کے بیوپاری اور اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔آخر ہمارے حکمران اور با اختیار لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ باغیرت قوموں کو زندہ رہنے کے لئے اپنے مسائل خود حل کرنے پڑتے ہیں۔جی ہاں ایمانداری فرض شناسی اور ملک سے محبت قوموں کے لئے پٹرول کا درجہ رکھتی ہے۔میرا کہنا صرف یہ ہے کہ آپ اپنے سیاسی ناٹک تماشے اور سسپنس اور تھرل سے بھرپور فلمیں چلاتے رہیں لیکن خدا کے لئے اس غلام رعایا کے لئے نظام کی چند کھڑیاں بھی کھول دیں۔ہوا کے چند جھونکے تو اندر آنے دو انصاف سستا کرو ،ظلم روک دو۔تعلیم عام کرو‘ قانون کو عام اور سیدھا بنا دو ۔تھانوں کو عقوبت خانوں سے دور کر دو پولیس کانسٹیبل کو قصاب نہ بننے دو اور ناپ تول کا نظام ہی ٹھیک کر دو۔کمی کو جاگیردار سے بچا لو اور ملک کو کسی راستے پر تو ڈالو۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھامو‘ ایک میز پر بیٹھو‘ اپنی انائوں کے پہاڑ سے نیچے اترو۔اقتدار اور اختیار کے لالچ اور خبط سے باہر نکلو۔اپنے مفادات اور سیاسی مقاصد کے لئے جذباتی نوجوانوں کو اس ایندھن میں نہ جھونکو‘کچھ تو خیال کرو عام آدمی کی حالت بڑی پتلی ہو چکی ہے ۔کوئی ہے جو بتائے کہ یہ بے فیض اور بے ذائقہ مرغی ہزار روپے کلو کیسے ہو گئی ۔گھی‘ تیل،آٹا،دودھ دہی مصالحہ جات چاول‘ سبزیاں پھل‘ کیسے خریدے جائیں۔بجلی کے دماغ کا فیوز اڑا دینے والے بجلی اورگیس کے بلوں میں چھلانگیں مارتا اضافہ کس طرح ادا کریں۔بچوں کی فیس‘ بیماری کی صورت میں ادویات کے بڑھے ہوئے نرخ،آخر بتائو تو سہی کہ لوگ کیسے زندہ رہیں۔میں درجنوں نہیں سینکڑوں لوگوں سے گزشتہ ایک ماہ میں ملاہوں وہ پوچھتے ہیں کہ حکومت سے یہ پوچھ کر تو بتائو کہ ہمارا قصور کیا ہے۔لیکن لگتا ہے کوئی جواب دینے والا نہیں ہے یہ سب اپنے اپنے مورچوں میں بیٹھے ایک دوسرے کے خلاف اقتدار کے حصول کے لئے صف آرا ہو رہے ہیں۔ عقل سوال کرتی ہے کہ جب ایک ڈاکٹر عبدالقدر اس ملک کو جو 21ویں صدی کے دروازے پر کھڑے ہو کر سائیکل کی چین اور بیرنگ تک باہر سے منگواتا تھا۔دنیا کی ساتویں نیو کلیئر طاقت بنا گیا تو اس وقت ہم کہتے تھے کہ اس ملک سے باہر بیٹھ کر اس ملک کی بربادی کا تماشہ دیکھنے والے ایک لاکھ 60ہزار عبدالقدیر پچاس ساٹھ لاکھ کام کرنے والے ہاتھ اور اتے ہی سوچنے والے دماغ واپس آ کر اسے جاپان سنگا پور اور کوریا کیوں نہیں بنا سکتے۔تو اس طرح کے سوالات آج کے دور میں کرنے والے صاحب فکر کی خدمت میں عرض ہے کہ گزشتہ چار سال میں ملک سے چودہ لاکھ لوگ باہر جا چکے ہیں ان میں مزدور بھی ہیں ‘ خانساماں بھی‘ ڈرائیور اور دفتری امور کی شدبد رکھنے والوں کے ساتھ کئی ہزار وہ لائق ترین پروفیشنلز بھی ہیں جو اس ملک کا اثاثہ تھے۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ روزانہ 200سے زیادہ پروفیشنلز یہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں‘سرمایہ پہلے ہی بڑی تیزی سے پرواز کر رہا ہے۔صنعتی ڈھانچے ترقی کرنے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔میں نے ایک ماہر اقتصادیات سے دریافت کیا کہ ہم اس وقت معاشی طور پر کہاں کھڑے ہیں انہوں نے بڑے دکھ سے کہا کیا وہ ملک اقتصادی موت نہیں مر رہاجس کے کھیتوں میں صرف بھوک اگتی ہو۔جس کے دریا صرف سیلاب لاتے ہوں، جس کے کارخانے صرف سرمایہ داروں کے ٹیکسال ہوں اور جس کی پارلیمنٹ صرف نادہندگان کی محافظ ہو یہ ساری صورتحال کا مشاہدہ کر کے میں خود اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں۔میں جب ان مجبور اور مفلوک الحال ہم وطنوں کو دیکھتا ہوں اور ان بستیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو خیال آتا ہے یہ غربت ان لوگوں کا مقدر نہیں استحصال کی بدترین مشکل ہے۔یہ غیر محسوس تشدد ہے جس نے ان لوگوں کی سماجی معاشی اور سیاسی صورتحال مسخ کر دی ہے۔یہ ایئرکنڈیشنڈ ہالوں میں آرام دہ کرسیوں پر جھولنے والوں کے لئے سیاسی قلعے ہو سکتے ہیں جو الیکٹ ایبل کہلاتے ہیںلیکن ان مجبوروں کے لئے سماجی قبرستان ہیں جہاں سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ ان کا نواز شریف، عمران خان اور آصف زرداری سے یہی سوال ہے کہ یہ خاموش اکثریت سیاسی طور پر زندہ ہے ووٹ دے کر پھر مر جائے گی یہی اس کا مقدر ہے تو وہ آپ کو ووٹ کیوں دے؟