آج کے دور میں ایک ایسا لیڈر ہے جو کہتا تو خود کو جمہوری ہے لیکن اس کا رویہ آمرانہ ہے۔ وہ نعرے لگاکر اقتدار میں آیا۔ اس نے کہا کہ وہ صرف اپنے ملک کی بات کرے گا۔ دوسروں کی جنگوں میں اپنی قوم کو نہیں جھونکے گا۔ ملک میں سب کیلئے برابر کے مواقع پیدا کرے گا۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈال دے گا۔ وہ ہر روز جذباتی تقاریر اور ٹوئٹس کرتا رہا۔ اس نے پارٹی میں آمرانہ کلچر پیدا کیا۔ اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اختلاف کرنے والوں کا مذاق اڑایا گیا۔ ان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ مخالفین کو جانبدار اور جھوٹا قرار دیا گیا۔جب عوام نے اس لیڈر کو موقع فراہم کیا تو وہ ڈیلور نہ کرسکا۔ تو اس لیڈر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ووٹنگ کے ذریعے اس لیڈر کو نکال دیا گیا مگر اس لیڈر نے شکست ماننے سے انکار کردیا اور ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا کردیا۔ وہ آخر تک ہاتھ پاؤں مارتا کہ اس کے اقتدار میں رہنے کی کوئی راہ تو نکل آئے لیکن جب کوئی راستہ نہیں نکلا تو اس لیڈر نے اسی طرح کے الزامات عائد کئے‘ ایک نظریہ ایجاد کیا۔ عوام کو سڑکوں پر آنے اور ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کردیا اور اپنے تمام تر اقدامات کو قومی خدمت قرار دیدیا۔ اس کی وجہ سے اس کی پارٹی کے کچھ لوگ بھی اس کے خلاف ہوگئے۔ تو اس نے انہیں بھی بدنام کرنا شروع کردیا۔ اس بیانیہ پر کام شروع کردیا کہ عوام اس کی کارکردگی پر بحث نہ کریں اور اس کے گھڑے ہوئے بیانیے پر زیادہ بات کرنے لگیں۔ اس شکست کے باوجود یہ لیڈر اپنے حامیوں میں اتنا مقبول ہوگیا کہ وہ شکست کو قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہی نہ تھا اور اس کے حمایتی اس کے آمرانہ طرز عمل کے باوجود اسے ہیرو قرار دیتے رہے۔ اسے ایک ایسا لیڈر قرار دیتے رہے کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور وہ آج بھی اس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں جس لیڈر کی بات ہورہی ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ جس نے امریکی سیاست کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور امریکی پارلیمنٹ کی عمارت پر حملے کو بہت وقت گزر گیا۔ لیکن ٹرمپ نے امریکہ کے جمہوری نظام کو جو نقصان پہنچایا اس کا خمیازہ وہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ نفرت کا جو بیج بویا گیا تھا اس کی نشوونما آج بھی ہورہی ہے۔ یہ تو تاریخ کا ایک تجزیہ تھا۔ لیکن خود ہمارے ملک میں کیا ہوتا رہا۔ اس حوالے سے تاریخ کا ایک صفحہ پلٹتے ہیں۔ فاشزم اپنی بات منوانے دوسروں کے خلاف پروپیگنڈہ اور انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش ہر حکومت کا طرز عمل خصوصاً پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہی ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی جابجا یہ واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ شروع سے اب تک دیکھیں اسکندر مرزا کی کارستانیاں‘ کئی وزرائے اعظم کو گھر بھیج دینے‘ ملک میں اقتدار پر مکمل قبضہ کی خواہش میں غلطی سے ایوب خان کو چیف مارشل لائا ایڈمنسٹریٹر بنادینے اور پھر ایوب خان کے ہاتھوں طاقت کے زور پر اقتدار سے محروم ہونے‘ نہ صرف اقتدار سے الگ ہونے بلکہ ملک بدر ہونے‘ لندن میں معمولی سی ملازمت اور کسمپرسی کے حالات‘ ادھر پاکستان میں ایوب خان کی حکومت‘ مارشل لاء کی حاکمیت‘ سخت قوانین‘ عوام کو ریلیف دینے کی کوششیں‘ صنعتی اور زرعی ترقی کیلئے اقدامات لیکن جمہوری سسٹم میں نئی نئی ایجادات کا اجرائ‘ بی ڈی سسٹم کو متعارف کرانے‘ مادر ملت فاطمہ جناح کے خلاف الیکشن لڑنے اور دھاندلی کی نئی نئی ترکیبوں کے ساتھ انہیں شکست دینے‘ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں فوج اور عوام کے مثالی اتحاد اور عظیم الشان جذبوں کی داستانیں‘ پاک بھارت جنگ کے بعد تاشقند معاہدے پر اتفاق کرنے‘ اپنے سب سے ہردلعزیز وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اختلافات سامنے آنے‘ سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنے‘ بیماری کے مہیب سائے جھیلنے اور بالآخر اپنے خلاف چلنے والے ایجی ٹیشن کے نتیجے میں مارچ 1969ء میں آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو عنان اقتدار سونپ کر اقتدر سے رخصت ہوئے۔ یحییٰ خان کی شخصیت کئی منفی حوالوں سے نمایاں رہی لیکن انہوں نے ون یونٹ کے خاتمے‘ صوبوں کی بحالی اور ون مین ون ووٹ جیسے بڑے اقدامات کئے۔ 1970ء کے انتخابات کا انعقاد یحییٰ خان کا ایک کارنامہ گردانا جاتا ہے‘ لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں غلط حکمت عملی‘ بے غرض فیصلوں کی کمی اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے وطن عزیز کو دولخت کردیا۔ یہ پاکستانی تاریخ کا دلخراش باب تھا جو کچھ اس پورے عمل میں ہوا‘ کتنے لوگ مارے گئے‘ کتنے گھر اجڑے ۔ جب ان واقعات کو سوچتا ہوں جو کچھ ڈھاکہ‘ چاٹگام‘ نواکھالی اور کھلنا میں ہوا جس طرح خون بہا۔ صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بھٹو برسر اقتدار آئے تو یہ اسی وقت ممکن ہوا جب فوج کے ایک بڑے طاقتور گروپ نے یحییٰ خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا۔ بھٹو کے سامنے بہت سے چیلنج تھے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ایک مشکل وقت میں بھٹو نے بڑی فراست اور تدبر سے ملک کو مشکل حالات سے نکالا‘ اس میں کوئی شک نہیں۔ بے جا ضد‘ غرور اور ہٹ دھرمی بھٹو کی کمزوریاں تھیں لیکن بلاشبہ وہ ایک ویژنری لیڈر تھا۔ انہوں نے پاکستان کو ایک آئین دیا۔ ایسا متفقہ آئین جس پر سب متفق ہوگئے تھے۔ جمہوری پارلیمانی نظام‘ اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد‘ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے خصوصی تعلقات‘ پاکستانیوں کو ان ممالک میں بڑی تعداد میں بھیجنا۔ پاکستانیوں کے معیار زندگی میں بہتری کے امکانات کا پیدا ہونا‘ پاکستان کا جوہری پروگرام شروع کرنا‘ ڈاکٹر قدیر کو پاکستان لانے اور ان کی ہر ممکنہ مدد کرنے کی ابتدا‘ ہاں بھٹو سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے پاکستان میں نیشنلائزیشن کی اس وقت ابتدا کی جب دنیا ڈی نیشنلائزیشن کی طرف جارہی تھی۔ اس سے پاکستان میں صنعتی ترقی کا سفر متاثر ہوا۔ سرمایہ کاری کا رجحان کم ہوا۔ بھٹو کو بہت سے معاملات کا بہت گہرا احساس تھا لیکن ان کی بہت سی سیاسی مجبوریاں تھیں۔ وہ بھی زیادہ تنقید برداشت کرنے کے قائل نہیں تھے۔ مخالفین کو سلاخوں کے پیچھے رکھنا اور اپنی حکومت کے استحکام کیلئے وہ کسی حد تک جانے کیلئے تیار رہتے‘ لیکن اپنی تمامتر بین الاقوامی کامیابیوں اور خارجہ پالیسی میں غیر معمولی مہارت کے باوجود وہ اندرونی سیاست میں مخالفین کو برداشت کرنے کے زیادہ قائل نہیں تھے۔ وہ بڑے برق رفتاری سے آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ انسانی نفسیات کو سیاست کی چالوں میں استعمال کرتے لیکن جب وہ غیر ضروری اعتماد کا شکار ہوئے تو انہوں نے اس وقت سے ایک سال پہلے ہی انتخابات کا فیصلہ کرلیا۔ یہیں ان سے غلطی ہوئی۔ 1977ء کے انتخابات میں بھٹو باآسانی کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے غیر ضروری طور پر اپنے مخالفین کو ہراساں کرنے اور پیچھے دھکیلنے کی کوشش میں اپنے مخالفین کو اس بات کا موقع فراہم کردیا کہ وہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کو ایشو بناکر ان کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کردیں۔ تحریک چلی اور جب بھٹو نے خطرے کو بھانپا دیر ہوچکی تھی۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ملک میں مارشل لا لگادیا گیا۔ ضیاء الحق کیلئے دشواری اس بات کی تھی کہ اگر وہ انتخابات وعدے کے مطابق کراتے ہیں تو ای ایسی صورت میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کی کامیابی کے واضح امکانات موجود تھے۔ پاکستان میں شروع سے کھیلا گیا۔ اس میں کردار بدلتے رہے۔ ابھی یہ کہانی جاری ہے۔ ہم دنیا کے اور انقلابات اور اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے کئے گئے اقدامات کا جائزہ لیکر اس کہانی کو پھر آگے بڑھائیں کہ پاکستان میں حکمران کس طرح اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے کیا کیا ترکیبیں آزماتے رہے۔ (جاری ہے)