سِول سروس میں لفظ سِول کا لغوی معنی ہے ’’ملکی اجتماعی شہری گروہ‘‘ اور سروس کا مطلب ہے ’’نوکری اور خدمت کرنا۔‘‘ لہذا سِول سروس دراصل اجتماعی طور پر شہریوں کی خدمت کرنے کی نوکری ہے۔ ذرا سوچیے! کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ آپ نوکری بھی کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہے آپ کا گھر بار بھی چلتا ہے اور ربّ تعالیٰ سے خدمت کا ثواب بھی پائے چلے جا رہے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں بیورو کریسی کی اس لفظ کی اصطلاح فرانس سے شروع ہوئی جہاں بیورو کا مطلب ’’میز‘‘ ہے۔ یعنی جو لوگ میز اور کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں انہیں ’’بیورو کریٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ذرا بڑے پیمانے پر دیکھیں تو یہ سرکاری ملازمین کی ایک ایسی جماعت ہے جو قاعدے قانون مرتب کرتی ہے۔ سرکار کی پالیسیاں ان قاعدے قانون کے تابع ہو جاتی ہیں۔ بیورو کریسی فیصلوں کے نفاذ کے عمل کو سْست بھی کر سکتی ہے۔ فیصلے کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کس مسئلے کو حل کرنے میں جلد یا بدیر یا قطعی طور پر مسترد کر دیں۔ بدقسمتی سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے افسر شاہی کے کچھ گروہ بد عنوانی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یہ ناجائز خصوصیات نچلی سطح کی نوکر شاہی یعنی جو کلرک بادشاہ کہلاتے ہیں وہاں تک بھی جاتی ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ نوکر شاہی نو آبادیاتی نظام کا ورثہ ہے۔ نو آبادیاتی دور کا نمونہ انڈین سِول سروس کہلاتی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ مغربی ثقافت بھی تعلیم پر چھا گئی۔ ہندوستان میں رہنے والے لوگ انگلستان سے سائنس اور کامرس کی تعلیم حاصل کرنے جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں اعلیٰ حلقوں سے رابطہ رکھنے والوں کے گھرانوں کے چشم و چراغ کو فقط بی۔ اے کی طرف مائل کیا جاتا وہ بی۔ اے کر لیتے تو انہیں اعزازی مجسٹریٹ بنا دیا جاتا۔ یوں کوئی بھی ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے آگے نہیں پہنچ سکتے۔ انڈین سِول سروس کا امتحان پاس کرنے والے غیر معمولی ذہین ہوتے تھے۔ مگر دورانِ تربیت نجانے کیا اطوار اپنائے جاتے کہ وہ عام لوگوں سے ذرا فاصلے رکھتے شاید پس پردہ اس کا مقصد عوام پر حکومت کرنا مقصود ہوتا ہوگا۔ پاکستان کی بیوروکریسی کی تباہی کی اصل وجہ نا اہلی نہیں بلکہ بد عنوانی ہے۔ پاکستان بن جانے کے بعد کسی نے بھی نسلی یا فرقہ وارانہ امتیاز سے کام نہیں لیا بلکہ پورے خلوص سے بے غرضی کے ساتھ ملکی تعمیر میں حصہ ڈالا۔ موجودہ حالات میں وطنِ عزیز میں سیاسی عدمِ استحکام نے ایک طویل عرصے کے لیے ملک میں معیشت کو پنپنے نہیں دیا۔ مختلف ادوار میں یہ باتیں ثابت ہوئیں کہ کروڑوں اربوں روپے سرکاری خزانے سے خفیہ طریقوں سے اْڑا لیے گئے۔ مرحوم صدر مشرف نے مقامی حکومتوں کے نظام میں بہتری کے لیے اختیارات کی نچلی سطح تک 2000 میں جومنتقلی کے جو منصوبے تیار کیے اس سے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس سے پہلے کی مقامی حکومتیں صوبائی انتظامیہ کے تحت کام کرتی تھیں۔ مختلف شہروں اور قصبوں میں قاعدے قانون مختلف تھے جبکہ دیہاتوں کے لیے اور قانون تھے۔ پولیس افسران کو ٹاؤن پولیس کا نیا نام دیا گیا۔ تا ہم زراعت، تعمیرات، صحت، تعلیم، خواندگی اور سماجی ترقی کی خدمات بھی ہنوز زیر بحث ہے۔ کسی بھی ملک کی بیورو کریسی خارجہ پالیسی بناتی ہے۔ پیشہ وارانہ سفارت کار جمہوری حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود خارجہ پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے اس پر عمل درآمد ہوتے ہیں۔ پارلیمانی ادارہ پارلیمان کہلاتا ہے۔ کی اصل طاقت معاہدوں کی تصدیق کرتی ہے۔ خارجہ پالیسی کی رائے قائم کرنے اور عمل کرنے میں سیاست دان اور دانش ور طبقے کا نام آتا ہے۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی حکومت۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلی بہت سی دہائیوں میں ہمیں ملک میں جمہوریت کی بجائے فسطائیت، نازیت اور آمریت کا سامنا ہے۔ بے شک یہ پاکستان کی عزت و وقار کی بلندی کا معاملہ ہے کہ ہم اپنی ثقافتی اور اسلامی روایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے سرکاری خدمت کے محکموں سے بد عنوانی کو ختم کریں۔ بابائے قوم قائدِ اعظم نے سرکاری افسران کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہ حاکم نہیں بلکہ قوم کے خدمت گار ہیں: 14 اپریل 1948 کو افسرانِ حکومت سے پشاور میں خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا: ’’حکومتیں بنتی ہیں اور حکومتیں گرتی ہیں۔ وزرائے اعظم آتے ہیں اور وزرائے اعظم جاتے ہیں۔ وزیر آتے جاتے ہیں۔ لیکن آپ لوگ وہیں رہتے ہیں۔ اسی طرح آپ کے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آ جاتی ہے۔ آپ کا اس سیاسی جماعت یا اس سیاسی جماعت اور اس سیاسی لیڈر یا اس سیاسی لیڈر کی حمایت کرنے میں کوئی ہاتھ نہ ہونا چاہیئے۔ شاید وزرا کی ناز برداری سے الگ رہ کر آپ کو ان کے عتاب کا نشانہ بننا بڑے۔ آپ کو اس لیے تکلیف بھی پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کے بجائے صحیح کیوں کر رہے ہیں۔ آپ کو قربانی دینا ہو گی اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور قربانی دیں، خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دیے جائیں۔ آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے۔‘‘ عدلیہ ہمارا سب سے سپریم اور مقدس محکمہ ہے۔ جسے ہر قسم کی مداخلت سے آزاد ہو کر بروقت فیصلے کرنے چاہیئیں۔ عدلیہ کو تمام تر انتظامیہ اور دیگر شعبوں سے الگ ہونا چاہیئے تاکہ عدلیہ ان تمام شعبوں کی مداخلت سے محفوظ ہوکر انصاف پر مبنی فیصلے کرسکے۔ ہمارے ایک دلیر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو صاحب خو شفاف ٹرائل کا حق نہیں ملا۔ نہایت دلخراش تاریخ ہے یہ۔ شہباز شریف فرما رہے ہیں کہ تاریخی غلطی کا ازالہ ممکن نہیں مگر اس سنگین غلطی سے ایک نئی تاریخ قائم ہوئی ہے۔ کیا صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ازالہ ممکن نہیں آپ کو پھر بھی نیند آجائے گی؟ کیا اب آئندہ قانون کا نظام تیز گام ریل کی پٹڑی پر چڑھے گا یا نہیں؟ افسوس جس ملک میں ایک عوامی لیڈر کو انصاف نہ ملا تو عوام کا حال کیا ہوگا؟آخر میں کہوں گی کہ سرکاری خدمات کے محکمے اب خدارا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ٭٭٭٭