ہمارا راستہ وہی تھا باب گیٹ نمبر سات سے درود پڑھتے ہوئے داخل ہونا اور باب السلام سے نبی پاک ؐ کے روضہ پاک کے احاطے میں آ جانا۔وہاں ہمارے دو ہی کام تھے جونہی داخل ہوتے آہستہ آہستہ پاؤں اٹھاتے مواجہ شریف کے پاس پہنچتے۔مواجہ شریف کا معنی ہماری اردو زبان میں روبرو اور سامنے کے ہیں یعنی وہ مقام جہاں عشاق نبی پاک ؐ کے سامنے یا روبرو ہوتے ہیں۔اس نعمت کا کسی دوسرے مذہب میں حصول کیا خیال بھی بعید از قیاس ہے۔ سنہری جالیوں کے سامنے۔جالیوں کے پاس۔ ایک خوش نصیب پہریدار جس کے بارے کہا گیا تیری خیر ہووے پہریدارا روضے دی جالی چم لین دے اساں ویکھناں اے رب دا نظارا روضے دی جالی چم لین دے میلے ٹھیلے کی رونق اور زینت عالم لوہار کے لکھی ہوئی اور خاص لحن میں پڑھی ہوئی نعت ہر پنجابی کے دل کی آواز بن گئی۔یہ الفاظ کس خوش بخت گھڑی کو لکھے گئے کہ بارہ کروڑ کے پنجاب کا کوئی ایسا آدمی نہیں جس نے یہ نعت نہ سنی ہو۔اور اگر سنی ہے تو مواجہ شریف کے سامنے جا کر یہ نعت ضرور یاد آتی ہے۔ صبح شام وظیفہ ہے اپنا یا محمدؐ یا محمدؐ ای جپنا ایہدے باہجھ نہ ساڈا گزارا روضے دی جالی چم لین دے مگر اب پہریدار بہت سخت ہو گیا ہے۔اب وہ روضے کی جالی چومنے نہیں دیتا۔وہ جالیوں کے قریب بھی نہیں جانے دیتا۔اب تو ایک چھوٹی سی دیوار بھی کھڑی کر دی گئی ہے۔ جب عاشق مواجہ شریف پر حاضر ہوتا ہے تو اس کی پشت قبلہ کی طرف ہوتی ہے۔عشاق نبی پاکؐ کے روبرو ہونے کی سعادت کا مطلب ہی کچھ اور ہے۔یہ نعمت کسی دوسرے آسمانی مذہب میں موجود نہیں۔کسی نبی کی امت کو ایسا انعام دان نہیں ہوا۔ہمارا دین کہتا ہے کہ جب آپ نبی پاکؐ کے روضہ پر حاضری دے کر آتے ہیں تو یہ مت کہیے کہ مدینہ گیا تھا یا نبی پاکؐ کے دوارے حاضری دی تھی بلکہ کہنا چاہیے کہ میں نبی پاکؐ سے مل کر آیا ہوں۔ حرم ِنبی ہوٹل سے محض چند قدم کا فاصلہ تھا۔جب ہم نبی پاکؐ سے ملنے کی غرض سے ہوٹل سے نکلتے درود شریف کا ورد کرتے کبھی اونچی آواز میں کبھی سرمستی میں کبھی دھیمی آواز میں پڑھتے حرم میں داخل ہوتے۔سات نمبر گیٹ سے داخل ہوں تو چند قدم کے فاصلے پر دائیں جانب مسجد نبوی کی لائبریری ہے جس کے دروازے پر مکتبتہ المسجد نبوی لکھا ہوا ہے۔اس کے اوپر بھی چند الفاظ لکھے ہوئے ہیں وہ ہم کوشش کے باوجود نہ پڑھ سکے۔دو چیزیں ہم پڑھ ہی نہیں سکتے ایک تو رومن میں لکھی ہوئی اردو اور دوئم وہ عربی رسم الخط جس پر اعراب نہ لگے ہوں۔وہ قرآنی آیات جو بچپن میں ہمیں یاد کروائی گئی تھیں البتہ اعراب کے بغیر بھی بغیر کسی دقت کے پڑھ لیتے ہیں۔ایک آدھ جملہ رومن اردو میں لکھا ہو تو پڑھ لیتے ہیں البتہ پورا پیرا گراف کبھی نہیں پڑھ سکے۔مکتبہ المسجد نبوی کے نیچے انگریزی میں Laibrary لکھا ہوا تھا۔ہم مکتب کو سکول کے معنوں میں لیتے ہیں۔یہاں آ کر یہ عقدہ بھی کھلا کہ جہاں کتاب یا کتب ہوں وہ جگہ مکتب ہی کہلائی جانی چاہیے۔لائبریری شاید اس کے لیے درست لفظ نہیں۔Liber جس سے لائبریری کا لفظ مستعمل ہوا، کا معنی درخت کی چھال ہے۔جہاں بہت سارے کاغذات ہوں وہ لائبریری ہے۔اگر وہاں لائبریری نہ لکھا ہوتا اور صرف مکتب لکھا ہوتا تو ہم کبھی نہ سمجھ سکتے کہ یہاں لائبریری ہے۔پہلے اس لائبریری کی جگہ مسجد سیدنا عمر ہوتی تھی۔یہ لائبریری 1915 میں قائم ہوئی۔کتابوں کی ازلی محبت ہمیں ایک دن اس لائبریری میں لے گئی۔پہلی منزل پر داخل ہوتے مطالعہ گاہ ہے جہاں کمپیوٹر لگے ہیں آپ آسانی سے وہاں بیٹھ کر ڈجیٹل کتب سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔خدا جھوٹ نہ بلوائے اتنی وسیع مطالعہ گاہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی۔ہر کرسی کے سامنے ایک کمپیوٹر نصب تھا۔ پہلی منزل پر مطالعہ گاہ کے باہر ایک باوردی گارڈ بیٹھا ہوا تھا۔ہم نے جوتے اتارے اور اندر داخل ہو گئے۔ہماری خواہش یہی تھی کچھ وقت اردو سیکشن میں گزارا جائے۔ایک آدمی سے پوچھا تو اس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔یہ اردو سیکشن ہے اتنی بڑی لائبریری میں بالکل چھوٹا سا اردو سیکشن ہے۔کمرہ بھی بڑا نہیں تھا اور اس وقت وہاں کچھ کچھ علما موجود تھے ان میں کوئی بھی پاکستانی نہیں تھا۔ یعنی سعودی عرب جا کر بھی ہم پاکستانیوں نے کتاب سے دوری کی روایت برقرار رکھی۔تھوڑی دیر وہ تمام لوگ اس کمرے سے چلے گئے تو ہم نے اطمینان سے کتب دیکھنی شروع کیں۔ایک طرف تفسیر ابن کثیر اردو اور تفسیر السعدی موجود تھی۔سعدی سے ہمارا خیال فورا فارسی والے سعدی کی طرف گیا۔مگر یہ عبدالرحمان بن ناصر السعدی ہے۔ویسے بھی ایسا تحقیق اور تفاسیر کا کام شاعر کے بس کا ہوتا بھی نہیں۔شاعر تخلیق کا جویا ہوتا ہے ایسے دقیق اور دقت ِنظر والے کام اسے کہاں راس آئیں۔یوں تو شاعر سعدی کا عشق رسول تو مشہور اور نبی پاکؐ نے خواب میں آ کر ان کو ایک مصرع بھی عطا کیا ہوا ہے۔شاعر ایسی عطا کا قتیل ہے۔ بلغ العلیٰ بکمالہ کشفَ الدْجیٰ بجمالہ حسْنت جمیعْ خِصالہ واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح ِرسول میں تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہوتا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو صلو علیہ و آلہ۔ (جاری)