گزشتہ تیس برس کے اعدادو شمار دیکھے جائیں تو معلوم ہو تا ہے پاکستان میں ایک سو بیس کھرب روپے سے زیادہ کرپشن کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اس میںسرکاری اداروں کی لوٹ مار بھی شامل کر لیںتو اعداد وشمار کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ بینکوں نے اربوں روپے کے جو قرضے معاف کیے وہ اس کے علاوہ ہیں۔انصاف ہو تو ہر جانب ہزاروں ہتھ کٹے نظر آئیں۔ ہربرسر اقتدار آنے والے نے کہا، پچھلی حکومت اس لیے ختم کی گئی کہ وہ کرپٹ تھی، مگر خوداس نے کرپشن کے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ہماری حکومتوںنے کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کا ڈرامہ رچایا،نیب نامی ادارے نے کرپشن کے مقدمات کی پیروی بھی کی، لیکن بعدازاں فیصلوں کے بغیر ہی یہ مقدمات تصفیوں اور ڈیل میں تبدیل ہوگئے ۔کر پشن کے ساتھ سارا کاروبار مملکت چلتا رہا۔آج بھی حکام چھوٹے بڑے سرکاری محکموں کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر بدعنوانی کا ارتکاب کرتے اورملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔کس میں ہمت ہے ان کا احتساب کرے؟حکمرانوں کے گھر محلات میں تبدیل ہوتے رہے ، ان کے اثاثے بڑھتے رہے،جب کہ قومی اور ملکی اثاثے برباد ہوتے چلے گئے۔ نئے لوٹ مار کرنے والے ساری ذمے داری پرانے لٹیروں پر ڈال دیتے ہیں۔اس کے باوجود نئے یا پرانے کسی لٹیرے کو کبھی سزا نہیںملتی۔حکومت میں شامل لوگ اپوزیشن کوچور قرار دیتے ہیںاور اپوزیشن حکمرانوں کو لٹیرا کہتی ہے،مگر کسی کو گریبان سے پکڑ کر عوام کی عدالت میں کھڑا نہیں کیا جاتا۔نئے لوگوں، نئے وعدوں اور نئے دعوؤں کے سحر میں گرفتار ہونا ہمارا قومی شعار بن گیا ہے ۔لوٹ مار ایک سائنس بن گئی ہے۔ امریکہ ہمارے معاملات میں اتنا دخیل ہو گیا ہے کہ اس سرزمین کی چادر اور چاردیواری بھی اس سے محفوظ نہیں رہی۔ عالمی استعمار نے ہمارے نظام کا گھیرائو کر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے امریکی استعمار کے دبائو سے نجات کیسے ملے؟ یہ اس ملک کی تاریخ کا الم ناک پہلو ہے کہ وہ لوگ جنہیں انگریز نے اپنی وفاداری کے عوض اس خطے کی زرخیز زمینیں الاٹ کر رکھی تھیں،انگریز سے آزادی اور قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستان بنا،تو اقتدار پر ان ہی کا قبضہ ہو گیا۔یہی لوگ ہیںجو کبھی محمد علی بوگرہ اورمعین قریشی کو باہر سے لے کر آتے اور تخت اقتدار پر بٹھاتے ہیں اور کبھی امریکی بنک کے ملازم شوکت عزیز کو بلا جواز حکمران بنا دیتے ہیں۔قوم کا اتحاد ان کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آتا ہے،اسی لیے یہ ملک میں نسلی،لسانی اور مذہبی فرقہ واریت پھیلانے والوں کو نہیںروکتے۔ حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت ختم کی جاتی ہیں، مگر کرپشن ختم نہیں کی جاتی۔ کہنے کو تو عدلیہ اور فوج کے اداروں کو مقدس قرار دے دیاگیا ہے ‘لیکن علانیہ توہین کی جاتی ہے۔اور عوام ہمیشہ کی طرح آج بھی بے یارو مددگار ہیں‘مگر پھر بھی حکمران یہی بنتے ہیں اور ان کے ایجنٹ اپوزیشن میں بھی موجود رہتے ہیں۔حزب اختلاف اقتدار تک رسائی حاصل کرتی ہے تو بھی صورت حال میں کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ تھوڑے ہی دن میں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہی چور ڈاکو چولا بدل کر آ گئے ہیںاور ملکی خزانے پر پہلے سے بڑھ کر ہاتھ صاف کیے جارہے ہیں۔موجودہ صورت حال میں امریکہ ایک اہم عنصر کی حیثیت سے موجود ہے جو پاکستان کو تبدیلی یا انقلاب کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔الا یہ کہ تبدیلی اور انقلاب اس کی مرضی کا ہو۔جس میں چین اور پاکستان کے ہمسائے پاکستان کے ساتھ صرف دشمنی جاری رکھیں۔ہزاروں کلومیٹر دور سے وہ اپنے چیلوں چانٹوں کے ذریعے تبدیلی اور انقلاب لانے کا راگ الاپ کر اس قوم کو ایسے تقسیم کرے کہ فوج فوج کے سامنے،عدلیہ ایک دوسرے کے سامنے ،صحافی ایک دوسرے کے سامنے اور باپ بیٹا ایک گھر میں مد مقابل ہو جائیں اور یہ سب بکھر جائیں ۔مگر انقلاب کا آغازاس دن ہو گا جب حکمرانوں، جاگیردارں اور سرمایہ داروں کے گریبان تھام کر لوگ ان سے مطالبہ کریں گے کہ تمہارے ذمہ واجب الادا کھربوں روپے کے قرضے ہیں ‘ قوم کو واپس کرو!انقلاب اس دن آئے گا جب ووٹ دینے والے یہ سوچیں گے کہ ہمارے ووٹ سے کوئی بدعنوان برسر اقتدار آگیا،تو اس کے ساتھ ہم بھی دوزخ میں جلیں گے۔تبدیلی اس روز آئے گی جب ووٹر ذات برادری سے اْوپر اْٹھ کر ایسے لوگوں کو ووٹ دیں گے جن کے بارے میں یقین ہو کہ یہ کبھی دھوکہ نہیں دیں گے اور ان کاحکمران ڈاکو ٹولے سے کوئی تعلق نہیں۔انقلاب اس روزآئے گاجب لوگ کسی منتخب حکومت کا خاتمہ کرنے والے آمر کو خوش آمدید نہیں کہیں گے۔انقلاب اس دن آئے گا جب خلق خدا ان چوروں کا گریبان تھامنے کے قابل ہوجائے گی جو خود تو عوام کے پیسے سے بیرون ملک علاج کراتے ہیں،بچے محفوظ پناہ گاہوں میں ہیںمگر غریبوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں بھی نہیں دیتے ؟ انصاف تب ہو گا کہ جب عوام متحد ہو کر عدل کا ساتھ دیں گے اور جب وہ ملک بھر میں ججوں کو یقین دلائیں گے کہ ظالم و طاقتور کے سامنے ڈٹ جائو ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ تب عوام اس قابل بھی ہوں گے کہ اپنے حکمرانوں، سیاست دانوں اور ان کی اولادوں سے پوچھ سکیں کہ تمہارے پاس اتنی زیادہ دولت کہاں سے آئی؟جب تک پاکستان کے پچیس کروڑ عوام اپنا حق حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں کرلیتے ہمارا ملک ، ہماری پارلیمنٹ اور ہماری عدلیہ کی آزاد ی نا ممکن ہے ۔جب تک ہمارے دشمن کے ایجنٹ ہم پر مسلط رہتے ہیں ‘ ہمارے اندر وحدت فکر وعمل پیدا نہیں ہوسکتی ۔ ہمیں ادراک پیدا کرنا ہو گا کہ یہ لوگ جو آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے ملک پر قابض ہیں۔ ہمارے بد ترین دشمن ہیں ۔یہ ہمارے بچوں کے یہ قاتل اورازلی دشمن کب تک ہمیں نوچتے رہیں گے؟ تعداد میں ہم سے کئی گْنا کم ہوتے ہوئے بھی یہ کب تک ہمارے سروں پر مسلط رہیں گے۔یہ سلسلہ کب ختم ہو گا کہ ایک جاتا ہے دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔یہ ہمارا مقدر نہیں کہ ہم اپنی آخری سانس اور اپنے قومی اثاثے کی آخری بوند تک لٹتے رہیں ۔کب تک یہ لٹیرے ہمیں لوٹتے رہیں گے اور لوٹ کا مال بیرون ملک بنکوںمیں منتقل کرتے رہیں گے،کب تک اپنے بچے باہر رکھ کر ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ کرتے رہیں گے؟؟