یہ بات اب سمجھ آچکی ہوگی کہ کشمیر پر پسپائی کی بنیاد امریکی حکمرانوں سے خوف پر جنرل مشرف نے رکھی تھی۔اس کا تسلسل ابھی تک جاری ہے۔پاکستان کے حکمرانوں کی یہ عاقبت نا اندیشی کشمیر کی تحریک آزادی کو ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے کہ جہاں خود پاکستان کی آزادی‘ بقا اور سا لمیت کے لیے بھی سنگین چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔یہ بات عام وخواص کو سمجھ لینی چاہیے کہ آزادی کشمیر کی جد و جہدکے لیے جو خطرہ بالکل سر پر آ گیا ہے وہ خود پاکستان کے لیے بھی کم خطرناک نہیں ۔ تحریک کواس کے نگہبان ہی نا قابل تلافی نقصان پہنچاچکے ہیں،انہوں نے بے سبب خوف کے تحت ایک کامہلک ہو گا ۔ صدر مشرف کے دور سے جو پسپائی اختیار کی گئی تھی وہ مسلسل جاری ہے۔ صدر مشرف نے 2007میں ہی تسلیم کر لیا تھا کہ جو کچھ کر سکتے تھے کر گزرے ہیں ،اس سے زیادہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔وہ شخص، جس کا دعویٰ تھا …’’کشمیر میرے لہو میں دوڑتا ہے.بڑی بے بسی سے کہہ رہا تھا۔۔۔’’مجھے اپنی زندگی میں کشمیرکا مسئلہ حل ہونے کی توقع نہیں رہی ۔‘‘اگر بات یہیں تک محدود رہتی تو بھی نقصان کی تلافی کا ایک امکان موجود تھا ۔ ناکامی کے علانیہ اعتراف کے بعد جنرل مشرف کے لیے واحد راستہ یہ تھا کہ فوری طور پر اقتدار چھوڑ دیتے ،لیکن وہ اپنی وردی سے چمٹے رہے ‘ ویسے بھی پاکستان کی تاریخ میںباعزت فیصلے ہونے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران مایوس ہو کر دشمن کے آگے ہتھیار پھینکنے پر تو آمادہ ہو جاتے ہیں،لیکن قوم کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے تیار آمادہ نہیں ہوتے ۔آزادی کی تحریکیں فرد واحد کی محتاج نہیں ہوتیں ،پاکستانی قوم میں اپنے حکمرانوں کی غلط روی کی اصلاح کی صلاحیت موجود ہے ۔ مگر حکمران راہ راست سے بھٹکنے کا یقین ہو جانے کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہیں ‘ بلکہ مزید بھٹکنے پر مصر رہتے ہیں۔ وہ کام جو سیاست دانوں کو خود کرنے چاہئیںاپنی نااہلی اور کرپشن کو چھپانے کے لیے دوسروں کا سہا لیتے رہے ہیں یہان تک کہ خوشامد میں ان کو وردی سمیت سو سو سال تک ’’منتخب کرانے کا عہد بھی کرتے رہے ہیں۔سیاست دان اپنی ناکامیوں کا الزام کسی اور کو نہیں دے سکتے وہ تحریک آزادی کو پے در پے صدموں سے دوچارکرنے کاسبب خود بنے۔ انہوں نے ہی تقسیم کشمیر کی حیران کن تجویز پیش کی ‘ کشمیر کے پانچ ٹکڑے کرنے کی رائے قبول کیا۔ جنرل مشرف سمجھتے رہے کہ وردی میں ہونے کی وجہ سے وہ ایک طاقت ور صدر ہیں،جب کہ امریکہ اور بھارت جانتے تھے کہ وہ کمزور ترین حکمران ہیں ۔چونکہ ان کی قانونی پوزیشن مشکوک تھی ۔اس لیے ان پر مزید دبائو بڑھا کر ان سے کچھ بھی منوایا جا سکتا ہے۔ بھارت اور امریکہ نے کشمیر کی ایک جائز تحریک کو دہشت گردی کے نام سے متعارف کرانا شروع کر دیا۔مشرف محض نام کے ’’کمانڈونکلے اوردہشت گردی کے نام سے تھرااٹھے۔ دہشت گردی کے امریکی اور بھارتی جعلی پراپیگنڈے نے مشرف حکومت کو کشمیرکی تحریک کی سیاسی، اخلاقی و سفارتی حمایت سے الگ کر دیا ۔امریکہ کی طرف سے پاکستان پر ایٹمی صلاحیت کے استعمال میں لاپروائی کے ارتکاب کا الزام عاید کرکے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا،جس کے بعد وہ مرتے دم تک نظر بند کر دیے گئے۔ ایک دور یہ بھی آیا کہ کشمیر کے سینے پر کھچی خونی لکیر پر ایک مضبوط باڑ لگا دی گئی اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ایثار کیش کشمیری جنہوں نے طاق نسیاں پر پڑے ہوئے مسئلے کو زندہ کیا وہ اسی سلوک کے مستحق تھے؟ ۔بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، توان کے پاس اپنے دعوے کی ٹھوس دلیل تھی۔وہ اپنے کمینے دشمن کی رذیل فطرت سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ جانتے تھے اگر ہندوستان ہماری شاہ رگ پرقبضہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گیا ‘تو وہ ہمارے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرے گا۔گزشتہ پچھتربرس کی تاریخ یہ ثابت کر چکی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے لیے محض انتظامی ‘جغرافیائی اور سیاسی اہمیت ہی نہیں رکھتی‘ بلکہ یہ اس کی اقتصادی زندگی کی ضمانت بھی ہے ۔ یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیں۔ عوام میں یہ شعور پیدا کرنا ضروری ہے کہ مشرف کی کشمیرپالیسی خود پاکستان کو کس قدر نقصان کا باعث بن چکی ہے۔ زرداری،نواز شریف اورعمران دور حکومت میں بھی اسی پالیسی کا تسلسل قائم رہا۔یہاں تک کہ2019 میں بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر وار کیا تو محض کشمیریو ںکرنے کے لیے کچھ تقاریر کے سوا کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ بھارت اپنے مفادات کے لیے کشمیر پر فوجی قبضہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔خطرے کی یہ تلوار ہر پاکستانی کے سر پر بھی لٹک رہی ہے ۔کشمیر کے تاجروں کو مزید اس بات کی اجازت نہیں ملنی چاہیے کہ یہ ملک و قوم کو بھی اپنے ساتھ تباہی کے راستے پرلے جائیں۔ چوبیس کروڑ پاکستانیوں اور ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ کسی بھی فرد واحد کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ۔اہل پاکستان نے بھی کشمیریوں کی طرح اپنے ملک کی تکمیل کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ‘ یہ قربانیاں ضائع نہ جائیں۔ چھ لاکھ کشمیریوں کا لہوکیسے بھلایا جاسکتا ہے؟ ۔یہ لہو رائیگاں نہ جائے ‘اب یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دینی چاہیے کہ پاکستان کے حکمران اگر موجودہ کشمیرپالیسی بدلنے کو تیار نہیں ہے تو انہیں ایک مضبوط دفاعی لائن سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ کشمیر پاکستان کی بقا اور سا لمیت کی ضمانت ہے ۔یہ تحریک ایک متاع عظیم ہے،اسے ہندوستان اور امریکہ کی خواہشات اورحکمرانوں کی خود غرضیوں کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ ٭٭٭٭٭