ایک ایسا بحران جس نے گذشتہ چند ماہ سے یورپ کے تمام ممالک کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں اور جس کے بارے میں اقوام متحدہ سے لے کر دنیا بھر کے معاشی و سیاسی تجزیہ کار بیک زبان ہو کر دہائی دیتے چلے آ رہے تھے کہ آنے والی سردیوں میں یہ بحران نہ صرف یورپ بلکہ افریقہ اور ایشیا کے بھی لاتعداد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ ماہرین وارننگ دیتے رہے کہ اگر بروقت اس سے نمٹنے کی کوشش نہ کی گئی تو لاتعداد ملک قحط، وبا اور کسمپرسی کا شکار ہو جائیں گے۔ 13 اپریل 2022ء کو اقوام متحدہ کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی گئی جس کا پہلا حصہ "Brief No.1" ان آنے والے حالات کی ہولناکی کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا ’’یوکرین کی جنگ کے دنیا کے خوراک، معیشت اور انرجی کے نظام ہائے کار پر اثرات‘‘ یہ رپورٹ نہیں بلکہ ایک وارننگ تھی جس کے منظر عام پر آتے ہی دنیا کے تقریباً تمام ممالک، خصوصاً یورپی ممالک نے اپنے عوام کو خوراک اور انرجی کے ممکنہ بحران سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کوشش شروع کر دی، یہاں تک افریقہ کے غریب ممالک، بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان نے بھی پیش بندیاں شروع کر دیں۔ جبکہ اس کے بالکل برعکس پاکستان کی شہباز شریف کابینہ، ہر آفت میں ’’مسیحا‘‘ کا کردار ادا کرنے والی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، یہاں تک کہ منافع خور کاروباری طبقہ بھی خوابِ خرگوش کے مزے لیتا رہا اور آج ہماری اس مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یہ ملک چند ہفتوں میں ایک ایسے بحران میں داخل ہونے والا ہے جس کا شاید ہمارے پاس فی الحال کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اس آنے والے بحران کے حوالے سے دنیا بھر کے اخبارات، رسائل اور عسکری جرائد پاکستان کا خصوصی تذکرہ کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا میں سب سے کم متعصب اور غیر جانبدار میڈیا جرمن میڈیا تصور ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جرمنی کی تاریخ میں کبھی بھی کوئی کالونی نہیں رہی ہے اور نہ ہی کبھی اس کے توسیع پسندانہ عزائم تھے۔ سرد جنگ کے زمانے میں بھی وہ بمشکل امریکی چھتری تلے اور نیٹو کا حصہ بن کر اپنی آزادی کا تحفظ کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے انہی غیر جانبدار جرمن تجزیہ کاروں کے تبصرے اور تجزیے امریکی اور برطانوی متعصب تجزیہ کاروں سے زیادہ قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ یوں تو دنیا بھر کے اخبارات میں پاکستان کے حوالے سے آنے والے بحران کی ہولناکی کا تذکرہ عام ملتا ہے لیکن جرمنی کے سنجیدہ میگزین ’’جرمن فارن پالیسی‘‘ میں 24 اگست 2022ء کو جو مضمون شائع ہوا ہے اس کا عنوان ہی چونکا دینے والا ہے، ’’یورپ مائع گیس کا ذخیرہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی روشنیاں گُل ہونے والی ہیں‘‘۔ یہ مضمون جرمن زبان میں شائع ہوا ہے، لیکن گوگل کی ترجمہ کی سہولت کی وجہ سے ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس مضمون کی ذیلی سرخی میں لکھا ہے کہ ’’غریب ترین ممالک کو انرجی کے بحران کا خطرہ ہے، کیونکہ یورپ مائع گیس (L.N.G) خرید رہا ہے‘‘۔ یعنی اس وقت عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام غریب ممالک بحران کا شکار ہونے والے ہیں، لیکن شہ سرخی میں پاکستان کا ہی تذکرہ کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اس بحران کی واضح آمد کی وجہ گذشتہ پانچ ماہ سے قائم ایک ایسی حکومت ہے کہ جس کے ابھی تک اوسان ہی بحال نہیں ہو سکے۔ گذشتہ کئی سال سے یورپ کے تمام ممالک اپنی گیس کی ضروریات روس سے پوری کیا کرتے رہے ہیں، لیکن جیسے ہی 24 فروری 2022ء کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو تمام یورپی ممالک نے اپنے اپنے ملکوں کے مفاد کے لئے دو اہم پالیسی اقدامات کئے۔ ایک یہ کہ امریکہ کے اتحادی ہونے کے باوجود یورپی ممالک نے امریکہ کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ روس سے گیس اور پٹرول نہ خریدیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب جوبائیڈن افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر گیا اور اس نے افریقی ممالک سے کہا کہ ’’آپ روس سے گیس نہ خریدیں‘‘ تو سب نے اسے یہ کہہ کر لاجواب کر دیا کہ ’’پہلے یورپ کو منع کرو پھر ہم بھی تمہاری بات مان لیں گے‘‘۔ یورپ نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ اس وقت دنیا میں جہاں کہیں بھی مائع گیس نکالی یا بیچی تھی، وہاں زیادہ قیمت دے کر اس گیس کا سودا کر لیا اور اس وقت عالم یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی ایل این جی کے آئل ٹینکر موجود ہیں یورپ ان کا سودا کر چکا ہے۔ اس بات کا اعتراف وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی کیا تھا کہ پاکستان اب سپاٹ مارکیٹ سے ایل این جی خریدنے کے قابل نہیں رہا کیونکہ دنیا میں جتنی بھی ایل این جی میسر ہے اس کا ہر مالیکیول یورپی ممالک نے خرید لیا ہے، (یہ وزیر پاکستان میں ایسا سچ نہیں بولتے)۔ عالم یہ ہے کہ پاکستان نے ایل این جی خریدنے کے جو معاہدات کئے ہوئے تھے یورپ کے ممالک ان معاہدات کو کینسل کروا رہے ہیں اور کمپنیوں کو معاہدہ کینسل کرنے کا 30 فیصد جرمانہ بھی ادا کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اگر وہ جہاز پاکستان کے ساحل کے قریب آ چکے ہیں تو انہیں کرائے کی رقم دے کر جہاز یورپ منگوا رہے ہیں۔ دو دن پہلے تک روس کی جانب سے یورپ کو گیس کی سپلائی جا رہی تھی اور یورپ اس ایل این جی کو استعمال نہیں کر رہا تھا جو اس نے دیگر ممالک سے معاہدات کے تحت محفوظ رکھی ہوئی تھی، لیکن 5 ستمبر کو روس نے یورپ کو "Nord Stream I" کے ذریعے جو گیس فراہم ہوتی تھی اس میں پچھتر فیصد کمی کر دی ہے اور کہا ہے کہ روس اس وقت تک پوری سپلائی فراہم نہیں کرے گا جب تک یورپی ممالک، روس کے خلاف معاشی پابندیاں ختم نہیں کرتے۔ پیوٹن کے ترجمان ڈیمرتی پیسکوو (Dmirty Pskove) نے کہا ہے کہ گیس کی بندش دراصل یورپ اور کینیڈا کی انہی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی روس نے یہ بھی کہا ہے کہ ہماری پائپ لائن میں ٹیکنیکل خرابی آ چکی ہے اور اس کی وجہ سے شاید ہم چند ماہ تک گیس فراہم ہی نہ کر سکیں اور یہ چند ماہ سردی کے ہیں۔ یورپی ممالک کے عوام ابھی سے سردی میں گیس کے بغیر زندہ رہنے کے تصور سے ہی کانپ رہے ہیں۔ یورپ نے تو مہنگے داموں گیس خرید لی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے دنیا کی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں کو بھی آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ یورپ کو سردیوں کی آمد کا خوف ہے جس کا اس نے بندوبست کر لیا ہے۔ ہمارا کیا ہو گا… جن کے پاس 39,772 میگا واٹ کی پاور جنریشن کی صلاحیت تو موجود ہے لیکن اس میں سے 25,098 میگا واٹ تھرمل اور صرف 9,915 میگا واٹ پانی سے بجلی بنانے کی صلاحیت ہے۔ تقریباً 60 ایسے پاور سٹیشن ہیں جنہیں بجلی پیدا کرنے کے لئے گیس یا ایل این جی کی ضرورت ہے۔ چند ہفتوں بعد یہ کیفیت آنے والی ہے کہ ہمارے ساحلوں پر کوئی ٹینکر ایل این جی لے کر نہیں آئے گا اور ہماری زمینی گیس جو ہمارے چولہے جلاتی ہے، اسے بھی اگر ان سٹیشنوں کو دے دیں تو بھی ضرورت پوری نہیں ہو سکے گی۔ گھروں میں گیس اور بجلی نہیں ہو گی اور ایسے میں سیلاب میں ڈوبا ہوا یہ ملک جب ایک خوفناک بحران سے دوچار ہو گا تو پھر کیا ہو گا؟ سوچ کر ہی خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔