یہاں تک کہ اگر کارٹر اشارہ کرے تو شاید میرا باورچی ہی مجھ پر سبزی کاٹنے والی چھری سے حملہ کردے۔'' اور پھر اس رات جب سارے پہرہ دار میٹھی نیند سورہے تھے۔ وہ سینئر آفیسر غلام اسحق خان کے گھر گیا۔ انہیں لان میں لایا اور ساری واردات ان کے گوش گزار کردی۔ غلام اسحاق خان وقت ضائع کئے بغیر آرمی چیف ہاؤس گئے اور دیر گئے تک وہاں مصروف ہے۔ اس ملاقات سے ٹھیک ایک ہفتے بعد جنرل ضیاء الحق نے امریکی سفیر کو اپنی رہائشگاہ پر عشائیہ دیا اور لان کے ایک ویران کنج میں اسے ہاتھوں کے اشاروں سے گھنٹے بھر بریفنگ دیتے رہے۔ 4 جولائی 1977ء کی رات جب وزیراعظم ہاؤس کی ڈائننگ ٹیبل پر جنرل ضیاء الحق کور کمانڈرز کی موجودگی میں ذوالفقار علی بھٹو سے گفتگو کررہے تھے اور بار بار ان کے منہ سے وی سر وی سر نکل رہا تھا اور بھٹو ''معاملات جلد حل ہوجائیں گے'' کی یقین دہانی کرارہے تھے تو اچانک جنرل ضیاء الحق نے پوری عاجزی سے سینے پر ہاتھ رکھا۔ تھوڑے سے آگے جھکے اور بولے ''سر وفادار گارڈز کی موجودگی میں نئے گارڈز کی ضرورت نہیں ہوتی' ہم آپ کے خادم ہیں' آپ ہم پر کھلا اعتماد کرسکتے ہیں'' ذوالفقار علی بھٹو کا رنگ پیلا پڑگیا۔ اگلی صبح جب پاکستان کے عوام کی آنکھ کھلی تو وفادار گارڈز حفاظت کی ذمہ داری سنبھال چکے تھے۔ اسی روز نئے حکمران نے ایک آرڈر جاری کیا اور فارن آفس کے ایک سینئر ترین آفیسر اور غلام اسحاق خان کی پروموشن ہوگئی' کچھ عرصے بعد ان میں سے ایک وزیر بن گیا اور دوسرا ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا صدر۔۔ ادھر ٹھیک بیس برس بعد 1993ء میں امریکی قونصل خانہ کراچی کا آفیسر گوادر پہنچا اور ٹہلتا ہوا ان چٹانوں پر جا رکا۔ جہاں سے بندر عباس کی روشنیاں زیادہ دور نہیں تھیں۔ سامنے تانبے جیسا سورج سیاہ فام مچھیروں کی بوسیدہ کشتیوں کی اوٹ میں ڈوب رہا تھا۔ جبکہ پیچھے اسلام آباد میں فارن آفس کا ایک سینئر آفیسر امریکی ٹیم کے دورے کا شیڈول تیار کررہا تھا۔ یکم سے تین تاریخ تک کراچی' تین سے سات تاریخ گوادر' سات سے نو تاریخ چٹانوں کا جائزہ' ہوا کے دباؤ کی پیمائش' پانی کے نمونے اور مچھیروں کی معاشی' معاشرتی اور تہذیبی زندگی پر مفتصل رپورٹ۔ باتیں تو اور بہت سی ہیں' لیکن یہ وقت کا ضیاع ہوگا۔ پھر دیکھیں وقت کیسے بدلا۔ آج گوادر نہ روس' نہ امریکہ بلکہ چین کی دسترس میں ہے۔ آج جب چینی بحر ہند میں اترچکے ہیں' آج تاریخ کچھ اور ہی بتارہی ہے۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور ایئرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ''میں مانتا ہوں آپ مجھ سے بہتر انگریزی بولتے ہیں' لیکن میں آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو آگے بڑھانے سے باز نہ آئے اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کو پوری عرب دنیا میں پھیلادیں گے تو میں آپ کو وارننگ دے رہا ہوں کہ ہم آپ کو عبرت کی تصویر بنادیں گے۔'' یہ بات بھی ریکارڈ کی ہے کہ جب صدر ضیاء الحق مرحوم 5 جولائی 1977ء کی شب ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے فرمان افروز پر دستخط کررہے تھے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے سفیر ان کے سامنے بیٹھے تھے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں راولپنڈی کے راجہ بازار پہنچ کر امریکیوں کی جانب سے آیا ہوا خط لہرایا تھا اور قوم کو بتایا تھا کہ امریکی ان کی جان کے در پے ہیں۔ کل عمران نے جب اپنی واسکٹ سے وہ خط نکالا۔ تو مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کیا مندرجات ہیں۔ وہ کس کی طرف سے ہیں۔ لکھنے والے نے کیا زبان استعمال کی ہے۔ لیکن انہوں نے بھٹو کی بات کرکے بھٹو کی یاد تازہ کردی۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ بھٹو امریکیوں کو اس وقت سے کھٹک رہے تھے جب انہوں نے لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے اپنی فہم و فراست سے مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ دور تھا جب ذکی یمانی نے جو سعودی عرب میں وزیر پٹرولیم تھے۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو مشورہ دیا کہ اگر سعودی عرب اپنی پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کردے تو سعودی عرب کی معیشت آسمان تک پہنچ جائے گی۔ امریکیوں نے اس پر سعودی عرب پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایسا قدم نہ اٹھائے' لیکن جب شاہ فیصل اپنے موقف پر ڈٹ گئے تو امریکہ نے سعودی عرب کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اپنا فیصلہ نہ بدلا تو امریکی افواج ایک ہنگامی ایکشن کے ذریعے سعودی عرب کے پیٹرولیم کے کنوؤں پرقبضہ کرلے گی۔ اس پر سعودی فرمانروا نے پوری جرأتمندی سے امریکہ کو متنبہ کیا کہ انہوں نے اپنے تمام تیل کے کنوؤں پر بارودی سرنگیں بچھادی ہیں۔ اگر امریکہ نے ایسی کوئی حماقت کی تو ہم خود اپنے کنوؤں کو اڑادیں گے۔ فیصل نے کہا۔ کہ ہم دوبارہ اونٹوں' کھجوروں اور قہوہ پر چلے جائیں گے' لیکن اپنی حمیت اور خود مختاری کا سودا نہیں کریں گے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ فیصل کو ان کے بھتیجے سے شہید کروادیا گیا۔ یہی کچھ مصر کے صدر انوارالسادات کے ساتھ ہوا۔ کرنل معمر قذافی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ بھٹو کا تذکرہ کرکے جناب وزیراعظم نے اپنے خلاف ہونے والی سازش کو اس کا ریفرنس بنایا۔ یعنی ان کے خلاف بھی ایسی کوئی سازش ہورہی ہے۔ انہوں نے اشارتاً یہ بھی نہیں بتایا کہ انہیں دھمکیاں دینے اور سازش کرنے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ہاں بھٹو کے ساھ جوا ہوا۔ اس میں یقینا انہیں ان کی جرأت کی سزا دی گئی تھی۔ لیکن بھٹو کی غیر معمولی مقبولیت اور کرشماتی شخصیت کا کمال ہے کہ بھٹو جسمانی طور پر اس دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے جب 4 اپریل 1979ء کی رات انہوں نے پھانسی کے پھندے پر یہ کہا تھا۔ Finishid' لیکن بھٹو کا دور آج بھی جاری ہے۔