اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر چکی ہیں جوکہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے اور کسی بھی اپوزیشن کا آئینی اور اخلاقی حق ہے۔ اب آئین کے مطابق اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے تو عمران خان کو وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا چاہیے اور نئے وزیراعظم کا انتخاب ہونا چاہیے۔ اگر یہ تحریک ناکام ہو جائے تو عمران خان کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ بہت زیادہ آئینی مدت بھی باقی نہیں ہے۔ اگلا سال انتخابات کا سال ہے۔ اپوزیشن انتخابات کا انتظار بھی کرسکتی تھی لیکن اپوزیشن بڑی جلدی میں ہے اور وہ عمران خان کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یعنی اصل مسئلہ عدم اعتماد کا نہیں بلکہ عدم برداشت کا ہے۔ اس عدم برداشت کے عوامل پر اپوزیشن پارٹی کے لیے الگ الگ ہیں۔ ن لیگ کا پنجاب میں ایک بہت بڑا ووٹ بینک ہے اور پی ٹی آئی اپنی غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ سوچ کی وجہ سے اس ووٹ بینک میں کوئی کمی نہیں لا سکی۔ اگر ایسے ہی حالات ہیں اگلا انتخاب ہوا تو ن لیگ پنجاب میں لینڈ سلائیڈ فتح سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا اس عہدے پر برقرار رہنا ن لیگ کے لیے سب سے زیادہ سود مند ہے۔ تاریخ یہ گواہی دے گی کہ عمران خان کی ناکامی کی صورت میں اس کے عوامل میں سب سے بڑا حصہ پنجاب میں ان کا غلط ٹیم پر انحصار ہوگا۔ ن لیگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور کئی مرتبہ اس کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ ن لیگ نے نہ چاہتے ہوئے بھی تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے پریشر میں کیا ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز نے بھی اپنا فائدہ اس میں دیکھا ہے کہ وہ بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح اقتدار سے باہر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہیں۔ جناب شہبازشریف اپنے مقدمات کے ہاتھوں پریشان ہیں اور ان کا یہ بھی خیال ہے کہ شاید اس طرح وزارت عظمیٰ کا قرعہ ان کا نام نکل آئے۔ ان کی اپنی پارٹی نے تو ماضی میں بھی شاید خاقان عباسی کو ان پر فوقیت دی تھی۔ مریم نواز کسی قیمت پر بھی انہیں وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ تاہم عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں جناب شہبازشریف اپنے خاندان کی خواہش کے خلاف وزیراعظم کا منصب سنبھال سکتے ہیں۔ چاہے یہ چند ماہ کے لیے ہی ہو۔ مولانا فضل الرحمن تیس پینتیس سال کے بعد پہلی دفعہ حکومت سے باہر ہیں جو انہیں کسی طرح ہضم نہیں ہورہا۔ وہ ہر وقت غصے میں رہتے ہیں اور اکثر اوقات وزیراعظم اور اپنے دوسرے مخالفین کے لیے نامناسب زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ کبھی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں اور کبھی اداروں کو نشانے پر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو انصار الاسلام کا چیف آف آرمی سٹاف سمجھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان سے سلامی بھی لیتے ہیں اور اپنی انا کو تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے عمران خان کا مغرب کا نمائندہ قرار دیا جو مغربی تہذیب کو پاکستان میں ترویج دینا چاہتا ہے جو مولانا کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں شہبازشریف نے وزیراعظم کو امریکہ اور یورپ کے خلاف بات کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اس سے ہونے والے نقصانات سے قوم کو آگاہ کیا۔ مولانا کی انصارالاسلام نے پارلیمانی لاجز میں جو گل کھلایا ہے وہ لاقانونیت کی دنیا میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اب تو وہ ویڈیو بھی سامنے آ چکی ہے جس میں انصارالاسلام کا جتھہ پارلیمانی لاجز میں داخل ہورہا ہے۔ پارلیمانی لاجز کی سکیورٹی پر بھی آفرین ہے جس نے ساتھ ستر باوردی پرائیویٹ فورس کو لاجز میں جانے دیا۔ ہماری پولیس اور سکیورٹی کو ہمیشہ واقعہ ہو جانے کے بعد ہی احساس ہوتا ہے کہ کیا اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ پولیس اس فورس کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ مولانا اس سے پہلے دھمکی بھی دے چکے تھے کہ ان کی فورس نے اپنی لاٹھیاں تیل میں بھگوئی ہوئی ہیں کہ وہ مخالفین کو سبق سکھا سکیں۔ اس واقعہ کے بعد مولانا نے جس طرح پورے ملک کو جام کرنے کے احکامات صادر فرمائے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان کی دھمکیاں اکثر کامیاب ہوئی ہیں کہ نیب حکام آج تک ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے کیونکہ انہوں نے دو ہزار کارکنوں کو ساتھ لانے کا عندیہ دیا تھا۔ مریم نواز نے تو یہ کر کے دکھایا تھا اور اس کے بعد ان کو نیب میں بلانے کی آج تک جرأت نہیں ہوئی۔ ملک عزیز میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ آصف زرداری بھی خوف جوش و خروش دکھا رہے ہیں۔ آج کل ان کی صحت قابل رشک ہے اور وہ جیالوں کا لہو خوب گرما رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے جس طرح وزیراعظم کے مرحوم والد پر بہتان باندھے ہیں وہ نہ صرف ان کی تاریخ سے عدم واقفیت کے غمازی ہیں بلکہ یہ پتہ بھی دیتے ہیں کہ ہماری مستقبل کی نام نہاد قیادت کو جھوٹ بولنے میں کوئی عار نہیں ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کو مکمل بے وقوف سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم کے والد ایک زبردست پڑھے لکھے انسان تھے اور انہوں نے 1961ء میں ہی سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ بھٹو کے دور میں وہ کسی سرکاری ملازمت میں نہیں تھے جس سے انہیں کرپشن کی پاداش میں نکالا جاتا۔ وزیراعظم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی حوصلے میں نظر آتے ہیں اور عدم اعتماد کی ناکامی کے لیے پرامید ہیں۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی اپوزیشن ان سے بھی زیادہ نالائق ہے۔ عام لوگوں کو ان کا کوئی متبادل نظر نہیں آرہا۔ ورنہ بری حاکمیت کی جو مثال عمران خان نے قائم کی ہے وہ کسی طرح بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ وزیراعظم نے اپنی ضد کی وجہ سے اپنی پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہ واحد پاکستانی میں جو عثمان بزدار کی قابلیت اور طرز حکمرانی کو پہچانتے ہیں اور ابھی تک اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اگر عثمان بزدار کی جگہ کوئی اوسط درجے کا وزیراعلیٰ بھی پی ٹی آئی کو دستیاب ہوتا تو آج حکمران جماعت کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ میری ناقص رائے میں اگر پی ٹی آئی کے پریشر گروپس جناب عثمان بزدار سے جان چھڑوانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کا پی ٹی آئی اور عمران خان پر احسان عظیم ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد عمران خان کے لیے آئندہ الیکشن جیتنے نسبتاً آسان ہو جائیں۔ اگرچہ عمران خان دعوے کر رہے ہیں کہ وہ مائنڈ گیم کے ایکسپرٹ ہیں لیکن وہ آج تک اس کا کوئی علمی ثبوت نہیں دے سکے۔ اپنے غیر منتخب مشیروں پر انحصار کم کرنا ہوگا اور اپنا مشاورت کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں انہوں نے پاکستان کو نسبتاً آزاد خارجہ پالیسی کی راہ پر ڈالا ہے لیکن اس راستے کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے انہیں حکمت کا استعمال کرنا ہوگا اور نعرہ بازی سے گریز کرنا ہوگا جن طاقتوں کو وہ للکار رہے ہیں وہ انہیں نقصان پہنچانے کی حتی الوسیع کوشش کریں گی۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی انہی طاقتوں کا شکار ہوئے۔ بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انارکی ہمیشہ دشمن کو فائدہ دیتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے اور تصادم کو ہوا نہ دی جائے۔