’’روایت شکن ہی روایت ساز ہوتا ہے۔‘‘ یہ پہلا جملہ تھا فرخ سہیل گوئندی صاحب کا اپنی کتاب ’’میں ہوں جہاں گرد‘‘ کی تقریب رونمائی پر جو ہمارے تو دل میں اتر گیا۔ تقریب مکمل ہونے کے بعد ہم نے چائے پینے کے دوران انہیں کہا کہ آپ کا یہ جْملہ تو میں چْرا چکی ہوں۔ فرخ صاحب زور سے ہنسنے لگے۔ شاہی قلعہ میں مکاتب خانہ میں فروری 2021 کی ایک ڈھلتی ہوئی شام کو جب مدھم ہوتی ہوئی دھوپ دیواروں پر بیٹھی مسکرا رہی تھی، وہاں اس کتاب کی رونمائی تھی۔یہ نادر، انوکھی اور شاندار کتاب اپنے اندر کئی جہان سموئے ہوئے ہے۔ رنگا رنگ تصویروں سے مزین بہترین کاغذ پر اعلیٰ طباعت لیے ہوئے اس انوکھے سفر نامے کو پڑھ کر مجھے شدید جلن ہوتی رہی۔ میں بار بار اپنے ربّ سے کہتی رہی ’’ہائے اَو ربّا کیسی دنیا بنائی ہے جہاں آزادی صرف اور صرف مردوں کو ہے۔ اگر عورتیں یوں شتر بے مہار گھومتی پھریں گی تو ان کو آوارہ گرد کہا جائے گا۔ یہ انصاف تو نہیں ہے میرے اللہ۔‘‘ ویسے تو اس کتاب کا نام آوارہ گرد ہونا چاہیئے تھا لیکن میرے خیال سے شاید انہوں نے معاشرے کی مجموعی سوچ کو ملحوظِ خاطر رکھ کر جہاں گرد کر دیا حالاں کہ وہ ایک دلیر آدمی ہیں۔ کسی بھی تخلیقی مرد یا عورت کی طبیعت میں جب تک آوارگی نہیں ہو گی، کوئی مضمون، پینٹنگ یا شاعری تخلیق نہیں ہو گی۔ میں تو گاتی پھرتی تھی ’’پنکھ ہوتے تو اْڑ آتی رے‘‘ مگر یہ کیا؟ جب پنکھ نکلے تو ماں نے معاشرے کے ڈر سے کاٹ دیے۔ میں بیچاری جو پوری دنیا دیکھنا چاہتی تھی ،بس دبئی، مکہ، مدینہ اور برطانیہ تک ہی اْڑان بھرتی رہی۔ خیر میں اپنا ہی رونا لے کر بیٹھ گئی۔ جب میں اپنے ٹیڑھے میڑھے ناتواں ہاتھوں میں یہ موٹا تازہ سفر نامہ لے کر پڑھتی گئی تو ہر صفحے کو ہائی لائٹ کرتے ہوئے مجھے اپنے ارد گرد سے سڑاند سی آنے لگی۔ اپنے ارد گرد تسلی کر لینے کے بعد معلوم پڑا کہ یہ جلتا دھواں تو میرے ہی دل سے اْٹھ رہا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے جہاں میں فرخ گوئندی کی مختلف پرتوں سے واقف ہوئی وہیں اْن کی مدح سرائی پر مجبور ہوئی اوراپنی کم مائیگی اور کم سفری کا بھی احساس ہوا۔ آسمان کی طرف منہ اٹھایا اور خدا سے کہا: ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو!‘‘ تاکہ میں بھی آوارہ گردی کر سکوں۔ اس کتاب کو کھولتے ہی قاری صفحوں کی انگلی پکڑے مختلف جہانوں کی سیر پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اس کتاب میں ہپیو ں کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں جنگوں اور آلودگی کے خلاف تحریک چلائی۔ تاریخ و تہذیب سے بھرے اس سفر نامے میں شہنشاہ ایران کے خلاف عوامی تحریک جو سول نافرمانی میں بدل گئی تو شاہ کا تخت جھولنے لگا اور ایران میں انقلاب کا پرچم لہرانے لگا۔ خمینی اپنی 14سالہ جلا وطنی ختم کر کے 120 سے زائد عالمی صحافیوں اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس اپنی سر زمین پر پہنچتا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ جہاں گرد ہر جگہ جانے سے پہلے خوب مطالعہ کر کے جاتا ہے۔ امام زین العابدینؑ کی والدہ محترمہ شہر بانو کے روضہ اقدس شہرز کے ایک پہاڑ کی چوٹی پر حاضری دینے بھی جہاں گرد پہنچتا ہے۔ میزبان رسولؓ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے حضور بھی حاضری دیتا ہے۔ جہاں گرد بہت سے جہانوں سے گزرتا ہوا اپنے خوابوں کی سر زمین ایک سوشلسٹ ملک جو عشق کی طرح ملک ممنوع ہے وہاں پہنچتا ہے۔ اپنی محبوبہ صوفیہ سے ملنے کو جہاں گرد کی دھڑکنیں اتھل پتھل بھی ہوتی ہیں۔ کئی جگہوں پر خوف اعتماد پر حاوی ہو جاتا ہے۔ بلغار محنت کش عورتوں کے چہرے پر عجب سا سکون دیکھ کر جہاں گرد حیران ہوتا ہے کہ یہ اطمینان کیوں؟ جواب ملتا ہے اس سوشلسٹ ملک میں سرمایہ دارانہ دنیا کی نفسا نفسی نہیں ہے۔ یہاں پہنچنے پر جہاں گرد کو میڈم نور جہاں کا مشہور گانا یاد آ گیا: چل چلیے دنیا دی اوس نکرے جِتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے اس کتاب سے معلوم پڑتا ہے کہ دْنیا کی اْس نکر پر سرمایہ دار دنیا نے سوشلسٹ ملکوں کو اس حد تک خطر ناک سمجھا کہ ممنوع قرار دے دیا۔ کمیونزم کے پھیلنے کے خلاف امریکہ نے ’’سرد جنگ‘‘ کو پوری دنیا تک پھیلا دیا۔ بلغاریہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں سب کے لیے سب کچھ تھا۔ نہ تو وہاں خاص خریدو فروخت کی ثقافت اور نہ ہی اشتہار بازی تھی۔ نہ تو ٹریفک کا ہڑ بونگ اور صفائی یوں مانو جیسے شہر کو روز نہلایا جاتا ہو۔ جہاں گرد کو صوفیہ سے عشق ہونے لگا۔ صوفیہ میں دنیا کا سب سے حسین اور بھینی خوشبو والا گلاب پیدا ہوتا ہے جو نہ صرف قومی پھول ہے بلکہ شناخت بھی ہے کہ اس سے منفرد پرفیوم تیار ہوتا ہے۔ بلغاریہ کا معاشی نظام سود سے پاک ہے۔ اسی لیے فرخ سہیل گوئندی صاحب نے اسے ’’سرخ جنت‘‘ کا نام دیا ہے۔ وہ ایسی جنت ہے جہاں مغرب کے جدید صنعتی جمہوریت والے بھی نہیں پہنچ سکتے۔ وہاں کے باسی سودے بازی، برانڈز کی غلامی سے آزاد، مال کی خریدو فروخت، روزگار اور علاج کے فکر سے آزاد انسان زندگی کی دوڑ دھوپ سے محفوظ ہے۔ وہاں پر انسانوں کی زندگیوں کی فکر ریاست کے ذمے ہے۔ وہاں کے اشتراکی نظام سے بلاشبہ’’اشتراکی انسان‘‘نے جنم لیا۔ جہاں انسان منڈی کی بولیوں سے آزاد ہے۔وہاں کی بستیوں اور دیواروں پر بیٹھے ہوئے سکون کو دیکھ کر گوئندی صاحب کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ اس سفر نامے کو پڑھنے کے بعد مجھ پر بھی بے شمار تاریخی اوراق کھلتے گئے۔ جیسے ہر انسان کے سینے پر مختلف چیزیں سجتی ہیں۔ کہیں تمغے تو کہیں گھاؤ کہیں شکوے تو کہیں وفائیں۔ میرے دل پر ہمارے حکمرانوں کے مکرو فریب اور ریاکاری کا دکھ ہے کہ یہ ملک اسلامی جمہوریہ کہلانے کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ ٭٭٭٭٭