تبصرہ دلچسپ ہے‘ پوچھا حکومت پاکستان آئی ایم ایف سے کاروبار حکومت چلانے کے لئے ادھار مانگ رہی ہے تو آئی ایم ایف حکام عمران خاں سے ملنے کیوں آئے؟ کہا‘ بچے محلے کی دکان سے کچھ ادھار لینا چاہیں تو دکاندار فون کر کے ان کے باپ سے پوچھتا ہے کہ بچوں کو ادھار میں اشیاء دے دوں یا نہیں؟ دکاندار خوب سمجھتا ہے کہ رقم واپس کون کرے گا؟ پڑھتے‘ سنتے آئے ہیں کہ ایوب خاں کو بحیثیت کمانڈ انچیف سیاستدانوں سے میل جول ہوا تو اسے ان کی کارکردگی دیکھنے کا موقع میسر آیا لیکن جب فوج کے کمانڈ انچیف کو وزیر دفاع بنا کر اپنے برابر کابینہ کے اجلاس میں بٹھا لیا گیا تو سیاستدانوں کی جملہ صلاحیت آشکارہ ہو گئی۔اسے خیال آنے لگا کہ یہ ناکارہ سیاستدان نوزائیدہ ریاست کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے چنانچہ ان کے ذہن میں مارشل لاء کا خیال کلبلانے لگا انجام کار جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی اور پاکستان میں ’’ڈکٹیٹر شپ کا آغاز ہو گیا ۔یہ ایک طرف کی کہانی ہے اس کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے، ہوا یہ کہ ایوب خاں نے سندھ کے ایک شوخ چشم اور خوش وضع نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کو سابق باس سکندر مرزا کی سفارش پر اپنی کابینہ میں شامل کر لیا کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد اس نوجوان کو وزارت خارجہ کا قلمدان سونپ دیا گیا، فوجی حکومت وزارت خارجہ کا قلمدان یورپ سے تعلیم‘ جاگیردارانہ تربیت‘ امیر زادے بھٹو کو اعلیٰ فوجی افسران سے میل ملاقات کے وسیع مواقع میسر آئے، تو اس چست‘ چالاک اور اداکاری کے شوقین سیاستدان نے سادہ لوح فوجی افسران کو استعمال کرتے ہوئے ایوب خاں کی حکومت ختم کر کے خود برسر اقتدار آنے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اس لحاظ سے بھٹو خوش قسمت رہا کہ فوج کا احمق ترین یحییٰ خان اس کے دھکے چڑھ گیا۔چنانچہ اس نے یحییٰ خان کی طاقت اور حماقت کا خوب فائدہ اٹھایا۔بھلے پاکستان دولخت ہو گیا لیکن نشے میں دھت ڈکٹیٹر کے کاندھوں پر سوار ہو کر وہ مغربی پاکستان پر حکمرانی کرنے میں کامیاب رہا۔بھٹو بچ رہنے والے پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔بھٹو کو ایک ایسے سپہ سالار کی ضرورت تھی، جو اس کا حکم بجا لائے اس کی ٹیڑھی میڑھی حکمرانی اور لامحدود خواہشات کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے چنانچہ اس نے فوج کے بارے میں اپنے بہترین علم اور مہارت کے مطابق پوٹھو ہار کے جنگجو اور صوبہ سرحد کے پٹھانوں کو جن کی بڑی اکثریت فوج میں ملازمت اور قیادت کا تجربہ رکھتی ہے کہ ’’سو برس سے پیشۂ آبا سپہ گری‘‘ ان کی بجائے مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آنے والے ’’ملتان‘‘ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاء الحق کو نیا کمانڈر انچیف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، جو آرائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے۔بزعم خود بھٹو نے فوج کے بارے اپنے بہترین علم‘ ذہانت اور معلومات کے مطابق ایسا سپہ سالار ڈھونڈ لیا تھا جو اس کے سامنے ’’چوں‘‘تک نہ کر سکے اور اس کا ہر حکم بجا لانے کے لئے ہمہ وقت مستعد اور ہوشیار رہے گا۔بھٹو نے ایوب خاں کو دھوکہ دیا۔یحییٰ خاں کو بیوقوف بنایا اور ضیاء الحق کے ہاتھوں عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔تاریخ اپنا فیصلہ دے گی، جب دے گی فی الوقت فضا غبار آلودہ سی ہے کچھ صاف نظر نہیں آتا۔’’کہتے ہیں تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘‘ مگر اس تیزی اور سرعت کے ساتھ؟ یہ تو کسی نے سوچا نہ تھا بھٹو صاحب ایوب خاں کے ’’لے پالک‘‘تھے۔انہی کی گود میں ان کی سیاست اور وجاہت پروان چڑھی۔ایو ب خاں کی طویل قامت اور مضبوط سہارا نہ مل گیا ہوتا تو سندھ کی سیاست میں بھٹو صاحب کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔پاکستان بھر کی سیاست میں تو بالکل نہیں۔ پہاڑ سا بلند قامت اور مستحکم ایوب خاں اپنے ’’لے پالک‘‘ بالک بھٹو کے ہاتھوں زمین بوس ہو گیا۔چست چالاک ہوشیار خود پرست ذوالفقار علی بھٹو ’’بے ضرر ضیاء الحق‘‘ کے ہاتھوں انجام کو پہنچا، مختصر سی نام نہاد جمہوریت کے بعد گیارہ سالہ ضیاء الحق کی فوجی حکومت کا آغاز ہوا۔ایوب خاں کے دس سالہ دور حکومت میں ’’لے پالک‘‘ بھٹو پل کے جوان ہوا۔اب ضیاء الحق کا گیارہ سالہ اقتدار آیا تو انہوں نے ’’نواز شریف‘‘ نامی کو گود لیا۔ بھٹو انگریزی برانڈ تھا اور ضیاء الحق نے نواز شریف دیسی برانڈ متعارف کروایا۔بھٹو صاحب بمقابلہ کھوڑو‘تالپور ‘ چانڈیو‘ جتوئی ‘ پیر پگاڑہ سندھ کے سادات کے ہوتے ایم پی اے بھی نہیں بن سکتے تھے۔دیسی برانڈ نے تو بزبان خود راقم الحروف سے کہا جنرل جیلانی میرے محسن ہیں اور ہمارے خاندان کے بھی‘ میں تو لاہور میں کونسلر بھی نہیں بن سکتا تھا یہ جنرل صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے صوبائی وزیر بنایا‘ صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیتنے میں مدد کی اور پھر وزیر اعلیٰ بھی بنوا دیا۔میں اور میرا خاندان کبھی جنرل صاحب کا احسان چکا نہیں سکتے‘احسان مند نواز شریف کے ہاتھ اعلیٰ اقتدار تک پہنچے تو احسان مند نواز شریف ’’ضیاء الحق کے جانشینوں‘‘ کو نگلنا شروع کر دیا۔جہانگیر کرامت کو بے سبب چلتا کیا، نواز شریف کو بھی بھٹو صاحب کی طرح ایک ’’بے ضرر‘‘ کی تلاش تھی چنانچہ ان کی نظر منگلا کے کور کمانڈر جنرل مشرف پر آ کر ٹھہر گئی‘ مشرف بھی مہاجر تھے اردو بولنے والے‘ بھٹو کی طرح نواز شریف کا بھی خیال تھا کہ مشرف صاحب فوجی افسروں کے بڑے گروہ سے تعلق نہیں رکھتے وہ پوٹھو ہاری ہیں نہ پٹھان‘ پنجابی بھی نہیں ’’اکیلا چنا‘ کیا بھاڑ پھوڑے گا‘‘ اسی کو بری فوج کا سربراہ بنائے دیتا ہوں۔عمر بھر شکر گزار رہے گا اور بوقت ضرورت کام بھی آئے گا ’’مشرف صاحب بوقت ضرورت کام آنے ہی لگے تھے‘‘ کہ میاں صاحب سعودی عرب کے تعاون سے بھاگ نکلے ورنہ شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے ہوتے۔اگر شہادت پر فائز ہو جاتے تو مشرف کے بعد ان کی ’’سپتری‘‘ وزارت عظمیٰ بھگتا چکی ہوتی۔ ایوب خاں کو سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع میسر آیا تو انہوں نے سوچا وہ سیاستدانوں کے رگ رگ سے واقف ہوئے بھٹو کو فوجی افسران کے ساتھ میل جول میسر ہوا تو انہوں نے جانا کہ فوجیوں کی نفسیات جاننے والا کوئی دوسرا پیدا ہی نہیں ہوا جو وہ جانتے ہیں دوسرا کوئی نہیں جان سکتا چنانچہ وہ سادہ لوح فوجی افسران اور بدھو ضیاء الحق کے کندھوں پر سوار برسوں اپنی بادشاہت کا ڈنکا بجائیں گے۔ضیاء الحق کا خیال تھا سیاستدان ان کے اشارہ ابرو کے محتاج انگلی کے ایک اشارے پر قطار اند قطار حاضر خدمت رہیں گے۔نواز شریف نے سوچ رکھا تھا کہ فوجی افسروں سے ڈیل کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں، انہی کے کاندھوں پر سوار عشروں تک وزارت عظمیٰ کے کاروبار سے اکیلے نفع کمائیں گے ۔پرویز مشرف نے نواز شریف کو آن لیا کہ وہ بھی ضیاء الحق کی طرح ’’بے ضرر‘‘ تھے، بھٹو کا انجام اور بعد کار ردعمل ان کے لئے حوصلہ افزا تھا، بڑے بڑے جغادری سیاستدان پہلے ہلے میں ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے بڑے کھلاڑیوں سے میدان خالی ہوا۔چھوٹے موٹے سیاستدانوں نے ان کے ہاتھ بیعت کر لی۔دس برس گزر گئے اپنے تئیں سیاستدانوں کو سدھانے اور لبھانے کا فن سیکھ چکے بے وردی صدر بننے کا سودا سر میں سمایا۔وردی اترتے ہی جو ڈرتا ‘ ورتا کسی سے نہ تھا خوفزدہ ہو کر یوں بھاگا کہ جیتے جی اپنے ہی ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔جانشینوں نے بھی پوچھ کر نہیں دیا‘ ہاں تابوت کو کندھا دیا؟ یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ۔