سعودی ایئرلائن کے بوئنگ777 پر 8,879 میل کی مسافت طے کر کے، 2 نومبرکو تقریباً4بجے سہ پہر جہا ز نے لینڈ کیا تو امیگریشن کے مراحل ہمیشہ کی طرح درپیش تھے، ہر ملک، ہر خطّے، ہر بر اعظم اور ہر رنگ و نسل کا آدمی ایک ہی طرح صَف بستَہ تھا۔کہیں کسی کو کوئی استثنائی صورت میسر نہ تھی۔ ایک نظم اور ڈسپلن، سٹیٹ آفس کا عملہ الرٹ، چاک و چوبند، معاون اور مدد گار، واشنگٹن کے ڈیلس ایئر پورٹ پر ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری چیئرمین انٹرنیشنل پیس مشن احباب کے ساتھ موجود تھے، ایئر پورٹ سے باہر نکلے تو واشنگٹن کی سر مئی شام کے مسحور کن سائے گہرے ہورہے تھے، خوشنما مناظر نے طویل سفر اور اس کی تھکن رفع کردی۔ امریکہ کی دریافت کو محض پانچ سو اور ریاست ہائے متحدہ کی تشکیل کو صرف دو سو سال ہوئے ہیں، گویا ابھی تو اس سْپر پاور کی ہندوستان میں مغل سلطنت جتنی عمر بھی نہیں بنتی۔ تاریخ عالم بھی یہی بتاتی ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایک دو صدیاں محض پلک جھپکنے کے مترادف ہیں۔گویاپانچ صدیاں قبل دریافت شدہ،اس براعظم میں دوصدیوں پرانا ملک، کوئی اتنا قدیم بھی نہیں، کہ تاج محل اور جہانگیر کی طرح کی قدیم یادگار وں کی کوئی لمبی چوڑی فہرست مرتب ہوسکے۔ تاہم ان ساری باتوں کے باوجود،امریکہ نے ہر ممکن طریقے سے ملک گیر سطح پر اپنی تاریخی یادگاروں اور قومی ورثہ کو محفوظ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ امریکہ کو فعال جمہوریت اور ایک سْپر پاور بنانے میں جن لیڈروں نے کردار ادا کیا، اْن میں جارج واشنگٹن، تھامس جیفر سن اور ابراہم لنکن کی شخصیات نمایاں ہیں۔ ابراہم لنکن نے اس خطے میں، صدیوں پہ محیط غلامی کا خاتمہ کیا۔ مقامی سطح پر طویل تصادم اور خانہ جنگی پر قابو پایا اور اسی پاداش میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی۔ جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن نے جمہوری اداروں کو مستحکم کرتے ہوئے، امریکہ کے دستور میں شخصی آزادی، انفرادی حقوق، مذہب کی آزادی اور تحریر و تقریر وحریتِ فکر و نظر کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ امریکیوں نے اِن لیڈروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف یادگاروں کو اِن شخصیات سے منسوب کر کے، اِن کو جاوداں بنانے کی سعی کر رکھی ہے۔ جارج واشنگٹن کے نام پر، اپنے دارالحکومت کا نام رکھا اور پر پھر واشنگٹن مانومنٹ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے--- خیال تو یہی تھا کہ امریکہ یاترا کے دوران اپنے قارئین سے رابطہ رہے گا،لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا، دومسلسل ناغوں کے سبب احباب نے مزاج پْرسی کے پیغام ارسال کرنے شروع کردیئے اور یہاں کی یہ کیفیت کہ ہمارے پاکستانی احباب نے اپنی اپنی کاؤنٹیزیعنی علاقوں میں روزانہ ہی کچھ نہ کچھ اہتمام--- گویا: تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے دیارغیر میں اپنوں اور اپنے ملک اور مٹی کی کسک اور طلب بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ ایک دن نارتھ ورجینیا میں مینسس"MANASSAS" سے آگے شنٹلی "CHANTILLY" جو کہ واشنگٹن سے تقریبا 2گھنٹے کی ڈرائیوپر ہے، جہاں محبوب بوبی بھائی نے،اس جنت نظیر وادی میں ضیافت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ بوبی بھائی پکے لاہورئیے، اندرون شہر کی پیداوار، جدید اور قدیم کا آمیختہ۔ دوسرے دن ریچمنڈ"RICHMOND"جہاں چوہدری عاصم، چوہدری فاروق وڑائچ زلفی بھائی اور دیگر احباب کی دعوت پر حاضر ہونا تھا۔ریچمنڈ، ورجینیاکا دارالحکومت ہے، جوکہ نجانب جنوب تقریبا 110 میل کی مسافت پر واقع ہے،زلفی بھائی ڈاکٹرنیاز کے نواسے ہیں،جو پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹوٹ آف کیمیکل انجینیرنگ کے سربراہ رہے، لیکن ان کا اصل حوالہ حضرت داتاگنج بخش? سے نیازمندی اور داتا?دربار میں بالخصوص حضرت اقبالؒ کے ساتھ سحرآفریں حاضریوں کا ہے،جس کو انہوں نے متعدد مقامات پربیان کیاہے، زلفی بھائی خوب مجلسی آدمی ہیں، برادرم فاروق وڑائچ کاتعلق ظاہرپیر،رحیم یارخان سے ہے، ان کا پوراخاندان سادات ومشائخ نارنگ شریف کاارادتمند ہے، اس علاقے میں پاکستانی کمیونٹی کے روح رواں چو ہدری عصمت،جن کا تعلق کھاریاں سے، اور شرقپورشریف سے وابستگی کے حامل۔ اس سے اگلے دن شمالی امریکہ کے عظیم صوفی بزرگ باوامحی الدین کی خانقاہ پر حاضری کا اہتمام تھا، جس کی تفصیلات کیلئے الگ سے تحریردرکارہے، ان ساری سیاحتوں میں ڈاکٹر نوری صاحب کیساتھ خالد بھائی کی محبت آمیزرفاقت میسررہی، موصوف چیچہ وطنی کیساتھ گاوں سے متعلق ہے،خلوص اور محبت کا آمیختہ، دینی جذبوں کا امین،اللہ اسے مزید برکتوں سے سرفرازکرے، اسی طرح سرگودھا سے تعلق رکھنے والے افتخارججااوراسدگھمن کا شنواری ہوٹل میں دیاگیااستقبالیہ بھی یادگاررہا،اس دوران مختلف شاپنگ مالز میں بھی جانے کااتفاق ہوتارہا، قابل تقلید امر یہ ہے کہ 9بجے شب کے بعد تمام مالزاورشاپنگ سنٹربند ہوجاتے ہیں، خریداری کیلئے دن کی روشنی ہی سے استفادہ کیاجاتا ہے۔ بہرحال…… جد ھر بھی جائیں سرسبز شاداب وادیاں، زبردست ایکسپریس ویز،کہیں کوئی پولیس، ٹریفک سارجنٹ، سیکیورٹی بیرئیر،چیکنگ،ہڑبونگ، ہجوم، ہارن کا شور، نہ دارد،ہر کوئی اپنے آپ میں مگن اور اپنے راستے پہ رواں دواں، کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔ امریکہ کی خوبصورت سٹیٹ ورجینیا،جس کو محبت کی سرزمین کہا جاتا ہے، کے علاقے آکوقوان"OCCOQUAN" ہی میں، محترم ڈاکٹر ظفر اقبال نوری نے ایک عظیم الشان علمی اور دینی مرکز تشکیل دیا ہے۔جس میں بطور خاص مسجد الحسین کی ترتیب و تزئین ایمان کے جِلا کا باعث ہوئی۔ دریائے پٹامک "POTOMAC" کے کنارے اِس خوبصورت اور دیومالائی بستی میں،یہ سینٹر مقامی مسلم کمیونٹی کے ایمان وایقان کو استحکام عطا کرئے گا۔ بنیادی طور پر یہ عمارت ایک ڈیڑ سوسالہ قدیم چرچ کی تھی،جس کی ابتدائی تعمیر 1883 میں ہوئی،ازاں بعد 1924 میں تجدید و تزئین۔ یورپ اور امریکہ کا یہ بڑا المیہ ہے کہ لوگ مذہب سے اِس حد تک بیگانہ ہوگئے ہیں کہ ان کے معبد ویران اور چرچ اور کلیسا سنسان ہوگئے ہیں اوراب یہ داستان عام ہے کہ "چرچ برائے فروخت" کے لیے مسلمان سب سے موزوں خریدار ہیں کہ کم ازکم عبادت گاہ کی جگہ عبادت ہی بنے گی۔ چرچ کو انٹرنیشنل پیس مشن کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹرمحمد ظفر اقبال نوری نے خریدکر مسجد الحسین کے طورپر متعارف و متشکل کیا۔ جو خطّے کے مسلمانوں کے لیے کسی نوید ِ مسرت سے کم نہ تھی۔ اسی مرکز میں ڈاکٹر صاحب نے عالمی میلاد کانفرنس کا بھی اہتمام کیا۔ جس میں الشیخ محمد بن یحییٰ النینوی، سیّد حیدر پاشا قادری سمیت دیگر عمائدین بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس میں ورجینیا کا متعلقہ ٹاؤن میئر مسٹرار نی بھی شامل تھا، اور پوری کانفرنس کے دوران ورطہ حیرت میں مبتلا رہا کہ میں نے اس چرچ کے پادری کو مقامی کرسچیئن آبادی کی بے اعتنائی پر ہمیشہ آرزدہ دیکھا،مگر مسلمانوں کے اس جوش اور ولولے سے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی ہے۔اْس نے کہا کہ میں نے اِس مقام پر کبھی زندگی میں اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا۔ سیّد حیدر پاشا قادری بنیادی طور پر حیدر آباد دکن کے صوفی خانوادہ کے چشم و چراغ اور کیلیفورنیا میں مقیم ہیں۔ ان کے پاس خانوادہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گراں مایہ تبرکاتِ مقدسہ ہیں۔ جن میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاموئے مبارک بھی شامل ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر اس کی زیارت کے دوران ایک عجیب روحانی کیف و سرور فضا میں بکھر گیا۔ دلوں کے زنگ اْتر تے محسوس ہوئے،آنکھوں سے آنسورواں اور لبوں پہ درودو سلام کے نغمے۔ الشیخ یحییٰ النینوی بنیادی طور پر شام سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن امریکہ میں تصوّف و طریقت اور علم و معرفت کے فروغ میں اْن کی شخصیت اور خدمات لائق ِ تحسین ہے۔ بالخصوص یہاں کی نوجوان نسل اْن سے بہت زیادہ مانوس ہے۔ بہت خوبصورت سکالر لیکن بنیادی مشرب صوفیانہ ہے۔ ذکر کی محافل کا اہتمام و النصرام بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر نوری صاحب کو مہمیز لگائی کہ آپ نے مسجد الحسین بنالی، محض اسی پر قانع نہ رہنا، ابھی انشااللہ مسجد الحسن بھی بنے گی اور پر ان سب سے عظیم تر مسجد علی المرتضیٰ کی تشکیل ہوگی -