امرتا پرتیم بر صغیر کی تقسم سے قبل پاکستان میں رہتی تھیں ۔گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیںاور جوانی کے کچھ ایام لاہور میں بسر کیے اور یہی سے اپنی ماردی زبان پنجابی میں شاعری شروع کی۔ رسیدی ٹکٹ کے نام سے اپنی زندگی کی یادوں پر مبنی آپ بیتی بھی لکھی جسے ادبی حلقوں میں زبردست پذیرائی ملی۔ لاہور ہی میں اُن کا ایک لازوال عشق بھی پروان چڑھا سا حر لدھیانوی نے امرتا کے ساتھ ٹوٹ کر عشق کیا اور پھر امرتا نے بھی اِس عشق میں ساحر کا بھرپور ساتھ دیا حالانکہ یہ عشق ایک مسلمان شاعر کا سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والی شاعرہ کے ساتھ تھا لیکن وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا کہ ’’عشق نہ پوچھے دین دھرم عشق نہ پوچھے ذاتیں‘‘ ساحر بھی امرتا کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے اپنے اِس عشق کے بارے میں ساحر نے اپنی لازوال نظم کبھی کبھی میںاظہار کیا : کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے اِس نظم میں ساحر نے امرتا پرتیم کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ اِسی نظم کے پس منظر میں ایک بھارتی فلم ’’کبھی کبھی ‘‘ بھی بنائی گئی تھی امرتا پرتیم کی رسیدی ٹکٹ میں جگہ جگہ ساحر اور پھر امرتا کے خاوند امروز کا ذکر ملتا ہے۔ امرتا چونکہ ہر حال میں سچائی لکھنا چاہتی تھی اس لیے اپنی اِس آپ بیتی میں کئی جگہوں پر اُسے حقائق لکھنے پر تنقید کا سامنا بھی رہا لیکن اپنی دوسری کتابوں کے علاوہ جو نظم بعد میں ساحر کے عشق سے بھی بڑھ کر امرتا کے لیے بے انتہا وجہ شہرت بنی وہ اُن کی یہ لازوال پنجابی کی ایک نظم ہے جو امرتا پرتیم نے اگست 1947ء میں ہونے والی قتل و غارت پر لکھی تھی۔ یہ نظم آج بھی پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں یکساں مقبول ہے اور حساس دل رکھنے والے لوگ یہ نظم پڑھ کر اور سن کر رو پڑتے ہیں۔امسال اپنے ملک پاکستان کا 76 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ آزادی واقعی بہت بڑی نعمت ہے اور اِس کو حاصل کرنے کے لیے بر صغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین نے جس صبر اور حوصلے کے ساتھ اپنی جانوں اور اپنے مال کی جو قربانی دی تھی وہ بھی لازوال ہے۔ یہ مسلمان جب بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان کی طرف آرہے تھے تو راستے میں جس بے دردی کے ساتھ سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا وہ سچی داستانیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سکھوں نے جالندھر ، امر تسر اورپورے مشرقی پنجاب کے اندر جس بے دردی کے ساتھ مسلمان عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور پھر مسلمانوں کے گھروں کو جی بھر کر لوٹا وہ بھی ہمیشہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اپنی لازوال پنجابی نظم میں امرتا پرتیم نے 1947ء میں ہونے والے فسادات اور قتل و غارت کوجس طرح سے بے نقاب کیا وہ سچ رہتی دنیا تک زندہ رہے گا کہ چناب اور راوی کس طرح سے مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو چکے تھے اور جنہوں نے بھی پنجاب میں بسنے والے صاف شفاف اور پاکیزہ پانی کو انسانی خون سے رنگین کیا وہ انسان نہیں بلکہ بد ترین درندے تھے ۔ امرتا پریتم کی اِس لازوال نظم میں سے چند اشعار اپنے قارئین کے لیے پیش ہیں: اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وِچّوں بول تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول اِک روئی سی دھی پنجاب دی تْو لکھ لکھ مارے وین اَج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن اْٹھ دردمنداں دیا دردیا اْٹھ تک اپنا پنجاب اَج بیلے لاشاں وِچھیاں تے لہْو دی بھری چناب کسے نے پنجاں پانیاں وِچ دِتّی زہر رلا تے اونھاں پانیاں دھرت نوں دِتّا پانی لا اس زرخیز زمین دے لْوں لْوں پھْٹیا زھر گِٹھ گِٹھ چڑھیاں لالیاں پْھٹ پْھٹ چڑھیا قہر ڈِہ وِلسی دا پھیر وَن وَن وگّی جا اونھے ہر اِک دانس دی ونجھلی دِتی ناگ بنا ناگاں کِلے لوک منہ بِس پھر ڈنگ ہی ڈنگ پلوپلی پنجاب دے نیلے پَے گئے انگ گلیوں ٹْٹّے گیت پھر تر کلّیوں ٹٹی تند ترنجنوں ٹْٹیاں سہیلیاں چرخڑے گھو کر بند سنے سیج دے بیڑیاں لڈّھن دِتّیاں روہڑھ جتّھے وجدی سی پْھوک پیار دی اوہ ونجلی گئی گواچ رانجھے دے سب وِیر اَج بْھل گئے اس دی جاچ دھرتی تے لہْو وسّیا قبراں پیّاں چون پریت دیاں شہزادیاں اَج وچ مزاراں رون اَج سبھے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور آج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وِچّوں بول تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول ہماری نئی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مملکت خداداد پاکستان ہمارے لیے سب سے بڑی نعمت ہے یہ ملک ہمیں ایسے نہیں ملا۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اِس ملک کو حاصل کرنے کے لیے بڑی عظیم قربانیاں دی ہیں۔لیکن ہم نے آج اپنے ملک کا کیا حشر کر دیا ہے قانون اور انصاف جن معاشروں سے ختم ہو جائیں تو وہ معاشرے کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے ۔ 14 اگست ہماری آزادی کا دن ہے اِس دن ہم سب کو تجدید عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ملک سے کرپشن ،، نا انصافی اور اقربا پروری کا خاتمہ کریں گے۔ عملی طور پر ہمیں اب ایسا کرنا پڑے گا دولت کے انبار لگانے کی بجائے ہمیں اپنی نئی نسل کو دیانت داری ، حب وطنی اور محنت کا سبق دینا چاہیے افسوس کہ آج ہماری یونیورسٹیوں میں ہماری طالبات کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں اور اِن یونیورسٹیوں میں اب اساتذہ کم اور بھیڑے زیادہ ہیں۔ خدارا ہماری عفت مآب بچیوں کو اِن کے شر سے بچانے میں اعلیٰ عدلیہ اور بر سر اقتدار لوگوں کو اپنا بھرپور کردار اداکریں وگرنہ اگر تعلیمی اداروں میں بھی اِس قسم کا استحصال جاری رہا تو پھر ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ؟