حکومت الیکشن کرانا نہیں چاہتی لیکن وہ آئینی پابندی کا توڑ کرنے میں ناکام ہے۔جو پانسہ پھینکتی ہے وہ الٹ پڑ جاتا ہے ۔ایک بحران کا خلاصہ اتنا ہی ہے۔دوسرا بحران یہ ہے کہ جو لوگ ذہنی طور پر بیمار ہیں وہ اعلیٰ عہدوں پر تشریف رکھتے ہیں۔کبھی آپس میں لڑتے ہیں‘ کبھی ان کے اقدامات اور بیانات عوام کا خون خشک کرتے ہیں۔ ملک میں کوئی ماہر اور دانش مند ہوتا تو ان بیماروں کو سمجھا بجھا کر کسی طرح صلح کرا دیتا۔ تیسرا بحران غلط سمت کا ہے۔ملک معاشی طور پر مسلسل ڈوب رہا ہے لیکن معیشت کسی صاحب مسند کی ترجیح نہیں۔ان تین بحرانوں کو کم کر لیا جائے تو عدم استحکام‘ بے روزگاری ‘ مہنگائی ‘ لاقانونیت اور دہشت گردی کے مسائل خود بخود کم ہو سکتے ہیں۔ سردست پہلا بحران حل کرنے کے لئے جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔آئین پاکستان میں بالکل واضح لکھا ہے کہ کسی اسمبلی کی تحلیل کے 90روز کے اندر نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔ایسا کئی بار ہو چکا ہے لیکن یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا معاملہ جھگڑے کا سبب بن گیا۔اس معاملے کو ایک بڑے منظر نامے سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔قومی اسمبلی کی کل 342 نشستوں میں سے 183 پنجاب کی ہیں۔پنجاب اپنی آبادی کے لحاظ سے آدھا پاکستان ہے۔پی ڈی ایم اتحاد کو اندیشہ ہے کہ تحریک انصاف پنجاب میں دوبارہ حکومت بنا سکتی ہے۔قومی اسمبلی اور باقی تینوں اسمبلیوں میں انتخابات بعد میں ہونے کی صورت میں پنجاب کے نتائج ان پر اثرانداز ہوں گے۔بسں یہ خوف ہے جو پی ڈی ایم کو آئین شکنی تک لے آیا ہے۔ کیا آئین میں تحریر واضح حکم کو مبہم اور بعض صورتوں میں ناقابل قبول قانون سازی سے مٹایا جا سکتا ہے۔کوئی آئینی ماہر اس کا جواب نفی میں دے گا۔ہاں وہ سیاست دان جو شخصیت پرستی اور پارٹی پرستی میں ہر حد پار کر چکے ہیں ان کو اس میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہو گی کہ 342ممبران کی اسمبلی میں سے ڈیڑھ سو لوگوں کے ووٹ سے ایک قانون بنا کر ان ججوں کے اختیارات محدود کرنے کا منصوبہ بنا لیں جو آئین کے واضح حکم پر عملدرآمد چاہتے ہیں۔میں ذاتی طور پر ان عدالتی اصلاحات کے حق میں ہوں جن سے انصاف کی فراہمی میں سہولت پیدا ہو‘ عدلیہ کا وقار بحال ہو اور عدلیہ و پارلیمنٹ ایک دوسرے کے امور میں بے جا مداخلت نہ کریں لیکن یہاں ہمارے سامنے جو قانون سازی ہو رہی ہے وہ انتقام کی آگ میں جلتی ہوئی حکومت کو عدلیہ کو روندنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔ پاکستانی سماج میں کچے پکے ذہن کے مالک افراد نے اپنی حیثیت کو نمایاں بنا کر اصطلاحات کے معانی بدل دیے ہیں۔آپ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر سے پوچھ لیں وہ جمہوریت اور جمہوریت پسند کی جو تعریف کریں گے وہ کسی مخصوص عہد کی حد تک درست ہو گی‘ یہ ان بزرگوں کی فراست ہے کہ وہ اصطلاحات کی تعریف درپیش عصری ماحول کے مطابق کر سکتے ہیں لیکن ان کی جانب سے جمہوریت پسند کی ابھی تک کوئی ایسی تعریف سامنے نہیں آئی جو ہر موسم میں اپنے خوشنما رنگ برقرار رکھ سکے۔مسلم لیگ نواز کی جمہوریت تھوڑی سی مختلف ہے۔نواز شریف وزیر اعظم ہیں تو ن لیگ کی جمہوری حکومت ہے‘ ان کا بھائی اور پارٹی صدر اقتدار میں ہے ، پارٹی کہتی ہے یہ ان کی حکومت نہیں۔اپنے تھوڑے سے ووٹوں کو عزت دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے‘ مخالف کے کروڑوں ووٹوں کی بے حرمتی کو جمہوریت کہہ دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے جمہوری تصورات ابھی نابالغ ہیں۔یہ جماعت مسلسل احتجاج‘ دھرنوں اور جلسوں کے عناصر سے تشکیل پائی ہے۔ تحریک انصاف کی طاقت دو ستونوں پر کھڑی ہے۔عمران خان کی مرکزی حیثیت اور شریف و زرداری خاندان سے بیزاری۔جوں جوں وقت گزر رہا ہے یہ بیزاری دوسری جماعتوں کا ووٹ بینک کھا رہی ہے۔خیر اب اس شکل و صورت کی جمہوریت اور جمہوریت پسند پر تنقید کوئی سیاسی مفکر ہی کر سکتا ہے جسے نفع نقصان کا خیال نہ ہو۔کالم نگار و اینکر’’مثبت رپورٹنگ‘‘ کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار رہے ہیں۔ پاکستان میں آئین ایسے بچوں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو روز کھلونے توڑتے ہیں۔یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو دوسروں کے کھلونوں کو چھین لیتے ہیں۔جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو جمہوریت پسند‘ مزاحمت کار وغیرہ وغیرہ بن جاتے ہیں۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کسی عوامی‘ جمہوری اور ریاستی ایجنڈے پر اقتدار میں نہیں آیا۔حکومت ریاست کی طاقت استعمال کرتی ہے۔مسلح افواج‘ پولیس‘ سینکڑوں محکمے‘ قومی خزانہ۔یہ سب حکومت کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ امر حکومت کے اقدامات سے طے ہوتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے لئے ماں جیسی ہے یا ڈائن بن چکی ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد ایک سال سے حکومت میں ہے۔ایک فہرست بنائی جا سکتی ہے کہ حکومت نے اس ایک سال کے دوران پارلیمنٹ کو کس کام کے لئے استعمال کیا۔قانون سازی سے کس کو فائدہ ہوا۔ریاست کی قوت و بازو کہلانے والے اداروں کو عوام کے بنیادی حقوق غصب کرنے کے لئے کس طرح استعمال کیا۔یہ فہرست جیسے ہی مکمل ہو گی آپ پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ سیاسی شخصیات اور میڈیا پر ان کے ترجمان جو کچھ کہہ رہے ہیں یا کہتے رہے ہیں وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ان کی گفتگو‘ ان کے دلائل صرف عوام کو ہانک کر اس گھاتک شکار گاہ کی طرف لے جانے کے حربے ہیں جہاں تاریک مستقبل اور خون آشام بلائوں کی حکمرانی ہے۔ دریائے راوی کے عاشق اور برسوں سے ہمارے کالم کے قاری جناب یاسین رضا کی نظم یاد آ رہی ہے: یہ معتبر سی ہستیاں جو اربوں کھربوں کھا گئیں سمندری بلائیں تھیں جو خشکیوں پہ آگئیں