پنجاب پاکستان کا دل ہے۔پنجاب سے جنم لینے والی ہر تحریک پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔1977ء کی تحریک نظام مصطفی ؐ ہو یا 1974ء اور 1953ء کی تحریک ختم نبوت‘ سب نے پنجاب سے جنم لیا تھا اور تاریخ پاکستان پر انمٹ نقوش ثبت کئے۔ پچھلے چالیس بیالیس (40,42) سال سے پنجاب میں نواز شریف کا طوطی بولتا ہے۔یہ پنجاب ہی تھا جس نے پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو 1971ء کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا جبکہ بھٹو صاحب کو آبائی صوبہ سندھ میں بھی اکثریتی ووٹ نہیں ملے تھے۔پنجاب نے ادھر ہم‘ اُدھر تم کے باوجود بھٹو صاحب کو وزارت عظمیٰ کا تاج پہنایا مگر الیکشن میں دو تہائی اکثریت کے شوق نے 1977ء کے انتخابی دھاندلی کے الزام پر تحریک نظام مصطفیؐ کے ذریعے اقتدار چھوڑنے کا ماحول بنا دیا ۔ پنجاب کونواز شریف یعنی مسلم لیگ ن کا دل کہا جاتا ہے۔ اگر دل میں خرابی در آئی تو نواز شریف کی عوامی انتخابی مقبولیت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اس وقت وفاق یعنی مرکز میں نواز شریف کے برادر خورد شہباز شریف کی مخلوط حکومت ہے۔بے شک پاکستان کی معیشت بدنیتی اور بدانتظامی کا شکار ہے پنجاب کے سرکاری ملازمین اور عمر رسیدہ پنشنرز کے ساتھ بے اعتنائی ن لیگ کی غفلت کی نشاندہی کرتی ہے۔ حکومتیں سرکاری ملازمین سے چلتی ہیں حکومتیں سیاسی یا عسکری نظام کے تحت آتی جاتی رہتی ہے۔ جبکہ ملازمین کم از کم 60سال رہتے ہیں۔یہی ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھتی مہنگائی اور روز افزوں غربت میں سرکاری پنشن سے بڑھاپے کے دن گزارتے ہیں۔ہماری معاشی و معاشرتی ابتری اور بدنظمی کے باعث اکثر پنشنرز اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کی شادی کے فرائض بھی ادا نہیں کر پاتے۔پنشنرز کی اکثریت نپی تلی‘ بندھی بندھائی سرکاری تنخواہ سے دو مرلے کا گھر بنانے سے محروم رہتی ہے۔نیز بڑھاپا اور بیماری ایک ہی چیز کا نام ہے جبکہ پاکستان میں بدحالی کے ساتھ ساتھ بیماریوں کا علاج معالجہ مہنگا اور مشکل ہے ۔سرکاری ملازمین اور پنشنرز ریاست و حکومت کے حقیقی ترجمان اور نمائندے ہوتے ہیں ۔ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو سہولت‘ سکون اور سلامتی فراہم کرنے والی حکومتیں ہی عوام کی حقیقی خادم ہوتی ہیں ۔ نواز شریف کے برادر خورد اور موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف وزیر اعلیٰ کے طور پرخادم پنجاب اور خادم عوام کہلانا پسند کرتے تھے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے مخلوط حکومت کی نمائندگی کے باوجود پچھلے بجٹ اور موجودہ بجٹ میں مناسب اضافہ کیا۔گو یہ اضافہ مہنگائی اور غربت کے تناسب سے خاصا کم ہے مگر اس سے سرکاری ملازمین و پنشنرز کی کچھ نہ کچھ داد رسی ہوتی رہی۔ سرکاری ملازمین کی درجہ بندی ایک (01) سے بائیس (22) گریڈ تک ہوتی ہے۔وفاقی سیکرٹری بشمول پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ 22گریڈ کے سرکاری ملازمی ہوتے ہیں ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے گریڈ 1سے 16تک کے ملازمین کے لئے رواں تنخواہ پر 35فیصد اضافہ کا اعلان کیا جبکہ گریڈ 17سے 22تک کے ملازمین 30فیصد اضافہ کا اعلان کیا۔ پنشنرز کے لئے ساڑھے سترہ فیصد اضافہ کیا۔ روایت یہی ہے کہ صوبائی حکومتیں وفاقی بجٹ کے مطابق صوبائی ملازمین اور پنشنرز کو اضافہ اور مراعات دیتی ہیں۔اس بار بھی حسب روایت پنجاب کے سواتمام صوبوں نے وفاقی بجٹ کو صوبوں میں من و عن نافذ کیا جبکہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی صاحب مذکورہ بجٹ روایت کو توڑ دیا بلکہ خلاف ورزی کی۔نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے تکنیکی کمال یہ کیا کہ 30اور 35فیصد عدد اپنا لیا مگر رواں تنخواہ کے بجائے پہلی بنیادی (گریڈ کے اعتبار سے) پر اضافہ لاگو کیا جس کے باعث یہ اضافہ گھٹ کر اتنا کم ہو گیا کہ اسے اونٹ کے منہ میں زیرہ سے بھی کم ہے۔پنشنرز کے ساتھ زیادتی کی اس حد تک ہے کہ ان کا مرنا جینا ایک جیسا کر دیا ہے سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی مالی مراعات مثلاً لیو اینکیشمنٹ (Leave -encashment پر غیر حقیقی اور غیر منصفانہ پالیسی اپنائی کہ لیو اینکیشمنٹ بھی بنیادی سکیل کی ابتدائی تنخواہ کے مطابق ملے گی رواں تنخواہ پر نہیں وغیرہ وغیرہ۔سوال یہ ہے پنجاب میں یہ خلاف ورزی کیوں ہوئی ۔ اگر اس کا فوری ازالہ نہیں ہوتا تو ملازمین و پنشنرز کے ساتھ مذکورہ زیادتی میں وزیر اعظم شہباز شریف بھی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرح ذمہ دار اور جوابدہ ہیں۔ یہ بات ن لیگ کی سیاست بالخصوص پنجاب میں انتہائی مضر اور خطرناک ہے جبکہ وفاقی اور پنجاب کی نگران حکومتوں کی آئینی مدت دنوں میں ختم ہونے والی ہے۔ لہٰذا شریف برادران اور اسحاق ڈار صاحب سرکاری ملازمین و پنشنرز کی فوری داد رسی کریں‘ مبادادیر ہو جائے اور وقت کے ساتھ حالات بھی ہاتھ سے نکل جائیں۔ سرکاری ملازمین اور پنشنرز ریاست کا زیور اور حکومت کا اعزاز ہوتے ہیں۔ کیاآئی ایم ایف‘ عالمی بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک‘ عالمی عدالت‘ اقوام متحدہ یعنی نئے عالمی نظام کے نمائندے اپنے ملازمین اور پنشنرز کے یہی سلوک کرتے ہیں جو پاکستان میں شریف برادران کے زیر انتظام حکومت کر رہی ہے۔مذکورہ عالمی اداروں کے ملازمین اور پنشنرز کی نوکری اور پنشن دنیا کے ہر فرد بشمول پاکستان ایک سہانا خواب ہے۔اگر یہ خواب نہ ہوتا تو سابق وزیر اعظم معین احمد قریشی ‘ شوکت عزیز اور وزراء خزانہ مثلاً حفیظ شیخ اور پاکستان سٹیٹ بنک کے گورنر باقر رضا آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے ملازمین نہ ہوتے۔ اگر ان کو تنخواہ ،مراعات اور پنشن نہ ملے تو یہ مذکورہ عالمی اداروں کی تن دہی اور وفاداری سے ملازمت کریں گے؟پنجاب بجٹ آنے کے بعد سے پنجاب کے ملازمین اور پنشنرز پریشان اور سراپا احتجاج ہیں یہ کئی روز سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔میڈیا سے وابستہ اینکرز ‘ کالم نگاروں اور صحافیوں نے داد رسی کے لئے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کو بار بار معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا۔یہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں کہ نواز شریف یا شہباز شریف حل نہ کر سکیں یہ وفاقی بجٹ کی من و عن تعمیل کی حتمی نگرانی ہے۔ وگرنہ یہ مسائل سول و ملٹری ملازمین اور پنشنرز کے لئے سوہان روح بن جائیں گے۔الحمد للہ پاکستانی ریاست کو 76سال ہو گئے ۔کیا ریاست اور حکومت کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے سابق رفقاء کے ساتھ یہ سلوک کرے جبکہ پاکستان میں اسی نوے برس کے پنشنرز زیادہ نہیں۔کیا یہ فلاحی اسلامی ریاست پر بوجھ بن گئے ہیں؟ نیز شریف برادران سے مخلصانہ گزارش ہے کہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی فوری داد رسی کریں۔اگر احتجاج اور مظاہرہ طویل ہوا تو اس احتجاج اور مظاہرہ کا فائدہ آپ کے سیاسی حریف اور جماعتیں بھی اس کا فائدہ اٹھائیں گے اور معاملات سیاسی‘ حکومتی اور ریاستی اعتبار سے ناقابل حل راہوں پر چل پڑیں گے۔لہٰذا پنجاب کے ملازمین و پنشنرز کی ہنگامی بنیادوں پر فوری داد رسی کی جائے۔