اسلام آباد میں ایک تقریب تھی اور جنوبی ایشیاء میں امن کے امکانات پر بات ہو رہی تھی۔ ایک صاحب نے کہا:امن کے لیے ضروری ہے کہ ہم 14 اگست1947ء کی نفسیات سے باہرنکلیں ، ہم وہیں اٹک کر رہ گئے ہیں۔شرکاء نے خوب داد دی اور مقررین نے بعد کی ساری غزل اسی زمین پر کہنا شروع کر دی۔ میری باری آئی تو میں نے عرض کی کہ آپ ہمیں 14 اگست1947 کی نفسیات سے باہر نکلنے کا کہہ رہے ہیں ، ہم تو ابھی 4 مئی 1799 کی نفسیات سے باہر نہیں نکل سکے اور ہماری روح تو ابھی سرنگا پٹم کے قلعے کے باہر ٹیپو سلطان کے لاشے کے پاس سوگوار پھر رہی ہے۔ بڑی لمبی مسافت آپ نے تجویز کی ہے ، ہم سے تو نہیں ہو گا۔ تو کیوں نہ ہم چودہ اگست کی نفسیات سے نکلنے کی بجائے ملامتی نفسیات سے نکلنے کی کوشش کریںتاکہ ہم میں تھوڑا اعتماد آئے اور ہم اپنی شناخت کے کسی بھی حوالے سے شرمندہ ہونا چھوڑ دیں۔ مزید عرض یہ کی کہ چودہ اگست کی نفسیات کے بارے میں ہمیں اپنی غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہیے۔ چودہ اگست کی نفسیات امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ، امن کا اظہاریہ ہے۔قائد اعظم کبھی بھی تصادم پر مائل نہیں تھے۔ وہ بھارت کے ساتھ باوقار تعلقات کے خواہاں تھے، امریکہ اور کینیڈا کی طرح۔ اسی لیے انہوں نے (بمبئی) میں اپنا گھر بھی فروخت نہیں کیاتھا۔ بعد میں حالات خراب ہوئے تو اس کی ذمہ دار ہندو شائونزم کی قوتیں ہیں ، چودہ اگست کی نفسیات نہیں۔ ویسے بھی چودہ اگست کی نفسیات سے نکلیں تو کہاں جائیں؟ اگست سے نکلیں تو سامنے اکتوبر کھڑا ہے،1947ء کا خوف ناک اکتوبر۔جب آر ایس ایس اور اکالی کے جتھوں نے جموں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ریاست پٹیالہ سے بھی فوجی دستے منگوا لیے گئے تا کہ و سیع تر آبادی کا قتل عام کیا جائے اور اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین پاکستان کا رخ کریں کہ اس کے بوجھ تلے پاکستان کا وجود ہی دب جائے۔اس واردات کا اعتراف میجر جنرل ڈی کے پلٹ اپنی کتاب’’ہسٹری آف جموں کشمیر رائفلز‘‘میں کر چکے ہیں۔خود بھارتی حکومت کے وائٹ پیپر میں بھی یہ اعتراف جرم موجود ہے۔ رابرٹ ورسنگ کی کتاب ’’ انڈیا‘‘ پاکستان اینڈ کشمیر ڈسپیوٹ ‘ اور لیفٹیننٹ جنرل ایل پی سین کی کتاب ’ کشمیر کنفرنٹیشن‘ میں بھی یہ اعتراف موجود ہے۔ اس قتل عام میں ٹائمز آف لندن کے مطابق 2 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔آئن سٹیفن کی کتاب’’ہارنڈ مون‘‘میں بھی مقتولوں کی یہی تعداد بتائی گئی ہے۔ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں ان دستوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تو اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں پاکستانی قبائل انہیں بچانے کے لیے کشمیر میں گھسے۔ تو کیا اہل کشمیر یر کو بھی آپ کل یہ مشورہ دیں گے کہ وہ اکتوبر کی نفسیات سے نکلیں اور اکھنڈ بھارت کے پجاری بن جائیں؟ میں نے یہ عرض بھی کہ کہ ہماری اس باب میں بھی رہنمائی فرمائی جائے کہ ہمیں صرف چودہ اگست کی نفسیات سے نکلنا ہے یا کل کو آپ ہمیںکشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی نکلنے کا مشورہ دیں گے؟یہ بھی بتا دیں کہ چودہ اگست کی نفسیات سے نکلنا ہے تو کیا اکھنڈ بھارت کے چرنوں میں جا بیٹھنا ہے؟ چودہ اگست کی نفسیات،1947 سے پہلے مسلمانوں کے عمومی مشاہدے کا نچوڑ تھا۔ کیا کسی ’’تحقیقی‘‘ ادارے کے سیمینار کے طے شدہ مہمانوں،طے شدہ سامعین اور طے شدہ موضوعات سے پھوٹتی فکر اس سارے مشاہدے کی نفی کرسکتی ہے؟ معززین بقلم خود کی خدمت میں یہ سوال بھی رکھا کہ صرف چودہ اگست کی نفسیات سے نکلنا ہے یا مشرقی پاکستان میں بھارت کی لشکر کشی کو بھی بھولنا ہے؟ ایک جونا گڑھ کی ریاست تھی جس نے پاکستان سے باقاعدہ الحاق کیا تھا۔ لیکن 17 ستمبر1948 کو بھارت نے وہاں لشکر کشی کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ تو کیا ہمیں 17 ستمبر1948 کی نفسیات سے بھی باہر تشریف لانا ہو گی؟مناوادر کے والی نے بھی پاکستان سے الحاق کیا اس پر بھی بھارت نے قبضہ کر لیا، کیا ہمیں اس نفسیات سے بھی باہر آنا ہو گا۔ چودہ اگست کی نفسیات اس وطن کی شناخت ہے۔ اس سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔ یہ نفسیات امن دشمن نہیں ، البتہ اپنی بقاء کے باب میں سنجیدگی کا نام ہے ۔ کیا بقاء کے لیے سنجیدہ رہنا کوئی بری چیز ہے؟ یہ کیسی امن پسندی اور دانش وری ہے کہ ایک قوم کی شناخت پر وار کیا جائے اور اسے کہا جائے کہ تم اپنی بنیاد کو فراموش کرد و تا کہ جنوبی ایشیاء میں امن یقینی ہو سکے۔ جو ہماری شناخت ہے وہ ہے، جس بنیاد پر ہمارا ملک بنا تھا وہ بنیاد آج بھی موجود ہے ، تو اس نفسیات سے باہر کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ جسے ہماری شناخت سے ہی تکلیف ہے اور جو امن کے فروغ کے لیے ایک ہی نسخہ کیمیا لے کر آتا ہے کہ ہم چودہ اگست کی نفسیات سے نکل آئیں ، وہ فرد چاہتا کیا ہے؟ مطلوب و مقصود کیا ہے؟ کشمیر میں اس وقت بھی مقتل آباد ہے اور اس مقتل میں ہر پندرہ اگست کو بھارت کے یوم آزادی پر یوم سیاہ منایا جاتا ہے ، کیا اہل کشمیر بھی اس نفسیات سے نکل آئیں؟ کیا ان کے پاس بھی امن حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں ، اس کے چارٹر ، اور خود سے کئے گئے بھارتی قیادت کے ان سارے وعدوں کو بھول جائیں جس میں نہرو نے انہیں یقین دلایا تھا کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ استصواب رائے سے ہی ہو گا؟ یعنی اگر وہ انٹر نیشنل لاء یا اپنے حقوق کا کوئی ایسا حوالہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کی جڑیں چودہ اگست 1947 کی نفسیات میں ہیں تو وہ امن نہیں چاہتے؟ امن کی خواہش ہے تو مودی کی نفسیات کے آگے شعور اور آزادی کو گروی رکھ دیا جائے۔ یہ سارا مقدمہ ہی نقص فہم پر مبنی ہے ۔ اس مقدمے کے داعی حضرات سے دو بنیادی سوالات ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اگست 1947 کی نفسیات میں ان کے خیال میں ایسی کون سی خرابی ہے کہ اس سے نکلا جائے۔ پہلے تو ہم سے اس نکتے پر بات کی جائے اور دلیل کی زبان میں ہمیں سمجھایا جائے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک این جی او اپنے مخصوص دانشوروں کے ساتھ مخصوص نتائج فکر جیب میں لے کر نکلے اور ہم سے مطالبہ کیا جائے کہ ہم کوئی سوال کیے بغیر ان کی اطاعت کریں اور اپنی بنیادوں پر تیشہ چلائیں تاکہ احباب کا سیمینار کامیاب ہو اور ڈونرز کو رپورٹ بھیجی جا سکے۔ دوسرا یہ کہ اگست 1947 کی نفسیات سے نکلیں تو کہاں جائیں؟ ملک کے تمام شہری این جی او بنا لیں؟ اور ڈونرز کی نفسیات کے اسیر ہو جائیں؟ سیمینار تو ختم ہو چکا ہے لیکن ان سوالات کا جواب ابھی تک موصول ہونا باقی ہے۔چودہ اگست کی نفسیات سے نکلنا تو دور کی بات ، کشمیر کے قبرستانوں سے تو پھولوں کے ساتھ یہ سوال پھوٹ رہے ہیں کہ ہمارا چودہ اگست کب ہو گا؟