مداری ڈگڈی بچاتا ہے، لوگ جمع ہوتے ہیں۔ایک ڈبے کے اوپر سو روپے کا نوٹ رکھتا ہے ،ڈبہ کھولتا ہے تو اندر سے چوزہ نکلتا ہے۔پھر ایک اور مداری آتا ہے کپڑا لہراتا ہے لوگ جمع ہوتے ہیں ،مداری اپنی پٹاری کھولتاہے ،اندر سے انڈے نکلتے ہیں وہ ان پر اپنا ہاتھ پھیرتا ہے اندر سے بندر نکلتا ہے۔ایسے ہی ایک اور مداری آتا ہے،ڈگدی بجاتا ہے ہجوم جمع ہوتا ہے۔مداری اپنے ہاتھ میں ایک روپے کا سکہّ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے کھینچتا ہے تو پانچ پانچ روپے کے دو سکّے نکال کر دکھا دیتا ہے۔ ہجوم عش عش کر اٹھتا ہے پھر مداری کا بچہ جمورا کشکول پکڑ کر مجمعے کی طرف بڑھتا ہے ،لوگ اس میں پیسے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ کوئی نہیں سوچتے کہ جوڈّبے سے چوزہ،پٹاری سے انڈے ،انڈے سے بندر اور ایک روپے کے دس روپے بنا سکتا ہے،اسے مزید دینے کی کیا ضرورت ہے؟آپ نے کبھی نہیں سوچا ہوگا۔اب سوچیے!! بھلے وقتوں میں دور دراز دیہات سے ایک دوست اپنے شہری دوست سے ملنے اس کے گھر گیا۔ اس کی آمد پر شہری دوست نے بہت مسرت کا اظہار کیا اور اس کی خدمت کے لیے بیوی کو حکم دیا کہ فوراً ایک مرغی بھون کر لائو۔ مرغی پک کر جب دسترخوان پر سجی تو شہری میزبان نے مہمان سے کہا۔ ’’حضور! آپ تقسیم کریں‘‘ بے چارہ دہقانی مہمان روایتی رواداری کے ہاتھوں مجبور تھا۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے میزبان سے تقسیم کے لیے کہا۔ میزبان تو پہلے ہی موقعے کی تلاش میں تھا اس نے پوچھا کہ اگر میں مرغی تقسیم کروں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ مہمان بے چارے کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا اس نے انکار میں سرہلایا لیکن دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ میزبان نے مرغی اپنے سامنے رکھی اور اس کا سر توڑ کر مہمان کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا ’’سر ہمیشہ سرداروں کے لیے ہوتے ہیں آپ ہمارے گائوں کے سردار ہیں، معزز مہمان ہیں‘لیجئے اور تناول فرمائیے۔‘‘ اس کے بعد میزبان نے مرغی کے بازو اپنے بیٹوں‘ دم بیوی اور پنڈلیاں بیٹیوں کے لیے کاٹ کر الگ کیں باقی جو بچا خود کھانے لگا۔ مہمان بہت خفیف ہوا‘لیکن کچھ نہ بولا۔ دوسرے روز کھانا تیار ہونے لگا تومیزبان نے بیوی سے کہا مہمان چونکہ بہت ’’محترم‘‘اور دور درازعلاقے سے آیا ہے لہذا آج اس کی خدمت کے لیے پانچ مرغیاں تیارکی جائیں۔ بیوی نے تعمیل کی۔ کھانا تیار ہوا‘ دستر خوان بچھا،مرغیاں سجیں تو میزبان نے حسب سابق مہمان سے ’’منصفانہ‘‘تقسیم کی درخواست کی‘ مہمان بے چارہ پہلے ہی شرمندہ شرمندہ تھا‘اس نے معذرت کرتے ہوئے میزبان ہی کو تقسیم کی اجازت دے دی۔ میزبان تو موقعے کی تلاش میں تھا۔ اس نے مہمان سے پوچھا’’آج کی تقسیم طاق میں کروں یا جفت میں۔‘‘ خفت کا شکار مہمان تھوڑا سا مسکرایا اور بولا ’’سرکار طاق میں کر دیجئے۔‘‘ اب میزبان مرغیاں تقسیم کرنے لگا۔ ’’آپ‘ میری بیوی اور ایک مرغی........تین‘‘ ’’میرے دو بیٹے اور ایک مرغی........تین‘‘ ’’میری دونوں بیٹیاں اور ایک مرغی........تین‘‘ ’’میں خود اور دو مرغیاں........ تین‘‘ یہ کہہ کر اس نے دو مرغیاں اپنی پلیٹ میں ڈال لیں آدھی مرغی مہمان کو دی او ر باقی اپنے خاندان کے لیے رکھ لیں۔ مہمان پسینہ پسینہ ہو گیا ایک تو میزبان کی چالاکی اور دوسرا ایک نامحرم کے ساتھ اس کا حصہ۔۔۔۔ ذلت میں گڑا جا رہا تھا‘ کھانے کوہاتھ نہ بڑھتا تھا کچھ لمحے میزبان یہ منظر دیکھتا رہا اور پھر مہمان سے انتہائی ہوشیاری سے مخاطب ہوا۔ ’’لگتا ہے‘ میری تقسیم آپ کو پسند نہیں آئی۔‘‘ ’’نہیں نہیں‘‘ مہمان بے چارہ اور شرمندہ ہوا۔ میزبان نے انتہائی شاطرانہ چال چلی اس نے سوچا شاید ’’مشرقی شہزادے‘‘ کو اس کی بیوی کے ساتھ مرغی کی تقسیم پسند نہیں آئی چنانچہ کہنے لگا۔ ’’کوئی بات نہیں میں تقسیم جفت میں کر دیتا ہوں۔‘‘ پھر اس نے ساری مرغیاں اپنے سامنے رکھیں اور جفت میں تقسیم کرنے لگا۔ ’’آپ‘ میرے دونوں بیٹے اور ایک مرغی........چار‘‘ ’’میری بیوی‘ میری دونوں بیٹیاںایک مرغی........چار‘‘ ’’میں خود اور تین مرغیاں........چار‘‘ یہ کہہ کرمیزبان نے تین مرغیاں اپنی پلیٹ میں آدھی مرغی مہمان کی پلیٹ اور باقی اپنے خاندان کے لیے محفوظ کر لیں۔ اب ذرا پھر سوچیے!! جب تک مداری زندہ ہیں ہجوم باقی ہے تب تک’’ہمارے میزبان‘‘ یہی کرتے رہیں گے۔