آج 15 اگست ہے۔ بھارت کا یوم آزادی ، مقبوضہ کشمیر میں جسے یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ وادی میں سنگینوں کے پہرے ہیں۔ سید علی گیلانی کے مزار پر کسی کو فاتحہ کی اجازت نہیں ، ان کے اہل خانہ پر مقدمے قائم ہو چکے ہیں کہ سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں کیوں لپیٹا۔ یسین ملک کے عدالتی قتل کی تیاریاں ہیں ۔ وادی میں ظلم اور اس کے مقابل عزیمت کا ایک حیران کن باب عشروں سے لکھا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ادیب اور شاعر کہاں ہے؟ وہ اس سے لاتعلق کیوں ہے؟اس عہد کا مزاحمتی ادب کہاں ہے؟ برسوں پہلے ، جب میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں انگریزی میں ماسٹر کر رہا تھا ، اپنے ڈیپارٹمنٹ کے میگزین کے لیے انٹر ویو کرنے جناب افتخار عارف کے ہاں گیا۔ میں نے پوچھا ادب میں دو اصطلاحات مستعمل ہیں ، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی ، آپ ان میں کس کے قائل ہیں۔افتخار عارف کہنے لگے کہ ادب برائے ادب کوئی چیز نہیں ، ادب کا تعلق زندگی ہی کی قوس قزح کے مختلف رنگوں سے ہے۔ آج میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کشمیر میں شہداء کے خون سے جو قوس قزح بلند ہوئی ہے ، ہمارا ادیب اور ہمارا شاعر اس سے لا تعلق کیوں ہے؟ ایک المیہ ہے جو ہمارے عہد میں رونما ہوا۔ پہاڑ جیسی عزیمت علی گیلانی کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی۔ وقت کی پہچان ابن الوقت نہیں ہوتے۔ وقت علی گیلانی جیسے صاحبان عزیمت کے سینے کی دھڑکن ہوتا ہے۔ نو آبادیاتی احساس غلامی رگوں سے نکلا تو مورخ لکھے گا کہ یہ نسل علی گیلانی کے عہد میں زندہ تھی، یہ دور علی گیلانی کا دور تھا۔ سوال یہ ہے اس وقت آج کے ادیب کے بارے کیا لکھا جائے گا؟ قطرہ قطرہ کشمیر سے لہو ٹپک رہا ہے۔ تاریخ انسانی کی یہ غیر معمولی مزاحمت ہے۔ مرض الموت میں ، ایک شام علی گیلانی کی سانس بحال ہوئی اور تکیے کے سہارے بیٹھ کر ورد کرنے لگے: اللہ ، لا الہ الا اللہ ، اللہ ، پاکستان ، لا الہ الا اللہ، اللہ پاکستان ، اللہ پاکستان۔میں کبھی کبھی یہ ویڈیو دیکھتا ہوں اور میرا وجود برفاب ہو جاتا ہے۔ جس عہد کا ادیب اور شاعر ایسی عزیمت اور ایسی محبت سے بے نیاز ہو جائے ، اس دور کا ادب معتبر ہے نہ اس کا ادیب۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اردو کے ادیب اور شاعروں نے فلسطین پر بہت لکھا ۔ دائیں اور بائیں کی تمیز ختم ہوگئی ، اتنا لکھا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ درد کی ایسی کسک کشمیر کے لیے کیوں نہ پیدا ہو سکی؟ انتظار حسین کا افسانہ ’کانا دجال‘ ، میں اس افسانے کا حسن بیان نقل کرنے سے قاصر ہوں۔ آپ خود پڑھ کے دیکھ لیجیے۔ انتظار حسین نے کیا شاہکار تخلیق کیا ہے۔انتظار حسین ہی کا ’شرم الحرم‘ بھی دل کے تار ہلا دیتا ہے۔قدرت اللہ شہاب نے ’اے بنی اسرائیل‘ لکھا اور حق ادا کر دیا۔مظہر الاسلام کا افسانہ ’زمین کا اغوا‘ بھی دل کا درد ہے۔سمیع آہوجہ نے ’تتلی کا جنم‘ کیا لکھا، لہو رلا دیا۔ قرۃ العین حیدر کا ’یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے‘۔ مستنصر حسین تارڑ کا سفرنامہ ’خانہ بدوش‘۔ نثر میں ہی نہیں ، اردو شاعری میں بھی فلسطین کا ایک پورا جہاں آباد ہے۔ اپنی نظم ’فلسطینی عرب سے‘ میں اقبال نے کہا تھا: فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے۔فیض احمد فیض نے ’سر وادی سینا‘ میں لکھا: یہیں سے اٹھے گا روز محشر، یہیں پہ روزِ حساب ہو گا۔’لاخوف علیھم‘ اور ’کربلائے لبنان‘ فیض احمد فیض کے اسی درد اور کرب کا اظہار ہیں۔ اسرائیل کے ہاتھوں مصر کی شکست پر احمد ندیم قاسمی نے ’روشنی کی تلاش‘ میں سوال اٹھایا: اب کہاں جائو گے، اے دیدہ ورو۔ فلسطینی مجاہدین کا قتل عام ہوا تو ’اردن‘ کے عنوان سے لکھی نظم میں احمد ندیم قاسمی نے کیا نوحہ لکھا: ’’ہم سب لہو کے اس دشت میں کھڑے سوچتے ہیں جو ہاتھ ہم پہ اٹھے ہمارے ہی ہاتھ تھے مگر ان میں کس کے خنجر تھے‘‘۔ ابنِ انشاء کی ’دیوارِ گریہ‘ کا تو جواب نہیں۔ سب کچھ ہی اس نظم میں کہہ دیا گیا ہے۔ منظور عارف کی نظم ’آئینے کے داغ‘ میں بیان ہوا وہ کرب: اتنا ٹھنڈا کبھی صحرا تو نہ تھا۔منظور عارف ہی کی نظم ’قبلہ اول‘ کا وہ اختتام: آتش بازو! کوئی عقیدہ اور نظریہ، آگ میں کیسے جل سکتا ہے، یہ تو اس میں کندن بن کر اور دمکنے لگتا ہے۔ حبیب جالب کی ’الفتح کے جوانو‘۔ احمد فراز کی ’بیروت‘ سے ٹپکتا وہ درد کہ ’’حرم سرائوں میں خوش مقدر شیوخ چپ، بادشاہ چپ ہیں‘‘۔ضمیر جعفری کی لیلی خالد‘،شہزاد احمد کی ’حسین کا سبق‘ کہ ہم کو تو مسجد اقصی بھی ہے قرآں کا ورق۔محمود شام کی ’بنت اقصی‘، رئیس امروہی کی ’فدیہ‘،زاہد ملک کی ’امڈے سیلاب ذرا ٹھہر!‘، فیروز شاہ کی ’کامران لہو کی بشارتیں‘،بلقیس محمود کی ’پکار‘،سلطان رشک کی ’ضربِ کاری‘، حسن عباس رضا کی ’ابھی علم پھڑ پھڑ ا رہے ہیں‘، احمد شمیم کا ’موت سے پہلے نوحہ‘۔۔۔ شدتِ غم میں محبتوں کی ایک مالا ہی تو پرودی گئی ہے۔ یہ بڑا اہم سوال ہے کہ جن روشن خیال ادیبوں نے فلسطین پر بہت لکھا ، انہیں کشمیر پر لکھنے کی توفیق کیوں نہ ہو سکی؟بادی النظر میں اس کی وجہ سوویت یونین ہے۔ جب فلسطین کی تحریک عروج پر تھی تو سوویت یونین اس کا ساتھ دے رہا تھا۔ بائیں بازو کے روشن خیالوں نے فلسطین سے زیادہ سوویت یونین کی خوشنودی کے لیے شاید یہ سب کچھ لکھا۔کمیونزم اور سوشلزم کی محبت میں لکھا۔ چنانچہ ان کے ہاں چی گویرا کی تھسین کے لیے اب بھی دیوان لکھے جاتے ہیں لیکن علی گیلانی اور یسین ملک جیسوں کی عزیمت کی تحسین میں لکھتے ہوئے ان کے قلم خشک اور ہاتھ پتھر ہو جاتے ہیں۔ یہ بد گمانی اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اگر انہیں نسبت حریت اور عزیمت سے ہوتی تو ان کا قلم کشمیر پر بھی ویسے بے تاب ہوتا ۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ کشمیر کے پیچھے کوئی عالمی قوت نہیں کھڑی۔ اب چونکہ فلسطین کے پیچھے بھی کوئی عالمی قوت نہیں رہی تو روشن خیالی ابھی اقصی کے لیے بھی آنسو نہیں بناتی کہ کہیں ادبی دہشت گردی کا الزام نہ لگ جائے۔ ایک زمانہ تھا ترقی پسند( اصطلاح پر غور فرمائیں ، باقی سب جیسے ترقی کے دشمن ہیں اور ترقی صرف ان نابغوں ہی کو پسند ہے) ادیبوں کی ایک کانفرنس میں کچھ لوگوں نے چاہا کہ اقوام متحدہ کی استصواب رائے کی قرارداد کی حمایت کر دی جائے اور اس ضمن میں ایک قرارداد لائی جائے ۔ انہوں نے اس قرارداد کو پیش ہی نہ ہونے دیا۔ اسی پس منظر میں ایم ڈی تاثیر نے سوال اٹھایا کہ کشمیر کے معاملے میں ادیبوں کاآخر موقف کیا ہے؟ اس کا جواب حسن عسکری کے ہاں ملتا ہے جنہوں نے لکھا کہ یہ ’ کائونٹر ‘ کی طرف منہ کر کے بیٹھتے ہیں۔ ادیب ، شاعر ، ڈرامہ لکھنے والے، ناول نگار سب کو چپ سی لگی ہے۔ پی ٹی وی اب گماشتوں کا لنگر ہے جہاں اہل اقتدار سخن فروشوں کو نوازتے ہیں۔ وہ زمانے لد گئے جب اس کا رویہ ایک ریاستی ادارے جیسا ہوتا تھا۔ اب سب کا منہ ’ کائونٹر‘ کی طرف ہے ۔